ان دنوں امریکہ میں فلسطینی خواتین پر فلمائی جانے والی ایک نئی فلم بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے ۔ اس فلم کی کہانی چار ایسی فلسطینی خواتین کی زندگی کے گرد گھومتی ہے جنہیں 1948 میں اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد سے 1990 تک اسرائیل اور فلسطین کے تنازعےکے باعث مختلف مشکل اور کٹھن مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔ فلم کے ڈائریکٹر ایک یہودی ہیں لیکن انھوں نے اپنی فلم کو ایک فلسطینی کی نظر سے پیش کیا ہے۔
ہند ال حسینی ان چار خواتین میں شامل ہے جنھیں اس فلم میں موضوع بنایا گیا ہے۔ ہند الحسینی نے 1948ءمیں یروشلم کے علاقے میں نادار فلسطینی لڑکیوں کے لیے ایک سکول قائم کیا تھا جہاں ان لڑکیوں کو پناہ دی جاتی تھی جن کے والدین اسرائیل فلسطین تنازعے کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔
میرال اس سکول ٕمیں 1980 اور 90 کی دہائی کے اوائل میں پلی بڑھی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغربی کنارےمیں آباد فلسطینیوں نے اسرائیل کے قبضے کے خلاف اپنی تحریک کا آغاز کیاتھا۔
میرال نے اس تحریک میں حصہ لیا اور اسرائیلی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوگئی۔ اسے قید میں اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ کہانی رولا جبریل کے لکھے ہوئے ناول پر مبنی ان کی آپ بیتی ہے جس میں اسرائیلی ظلم و ستم کو بیان کیا گیا ہے ۔
http://www.youtube.com/embed/jR9AtXCPpAs
رولاکا کہنا ہے یہ ایسے نہیں تھا کہ کوئی چیز ہوا اور پھر بات ختم۔ یہ ظلم آج بھی ہور رہا ہے ۔ میں آج وہ میرال نہیں ہوں۔ میں نے اپنی زندگی بنالی ہے، لیکن میرال جیسی بہت سی لڑکیاں آج بھی وہاں موجود ہیں۔ انھیں آج بھی تشدد اور نسل پرستی کا سامنا ہے۔ 1993ءکے امن معاہدے سے ایک امید کی کرن نظر آئی تھی لیکن وہ بھی ختم ہو چکی ہے۔
اسرائیلی حکومت کی جانب سے اس فلم پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا تاہم اس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس فلم کے پریمیئر پر اعتراض کیا ہے ۔ جبکہ کہ کچھ یہودی گروپس کو بقول ان کے فلم میں اسرائیل کی منفی تصویر کشی پرانہیں اعتراض ہے۔
اس فلم کے ڈائریکٹر جولین شنابل کہتے ہیں کہ انہیں اس تنقید کی ا کوئی فکر نہیں، کیونکہ وہ خودبھی ایک یہودی ہیں ۔
جولین کا کہناہے کہ مجھے معلوم تھا کہ کہ اس قسم کا رد عمل ہو گا کیونکہ امریکہ میں اس سے پہلے کسی امریکی یہودی نے ایک فلسطینی لڑکی کی نظر سے کوئی فلم نہیں بنائی ہے ۔ ظاہر ہے کہ ہمیں ، یعنی امریکہ میں بسنے والے یہودیوں اور اسرائیل میں بسنے والے یہودیوں کے درمیان مکالمے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس مسئلےکو حل کرنا ہے ۔
جولین کا کہنا ہےکہ اگرچہ اس فلم نے ایک تنازع کھڑا کر دیا ہے لیکن یہ بات ظاہر ہےکہ امریکی یہودیوں ، فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو مشترکہ طور پر خدشات درپیش ہیں۔
ان کا کہناتھا کہ مقبوضہ علاقے میں بسنے والے ان تمام لوگوں کو کچھ پتا نہیں کہ آج ان کا بچہ سکول سے گھر واپس آئے گا یا نہیں ، یا تو کوئی دہشت گرد لوگوں کو اڑا دے گا یا خوف میں مبتلا کسی فوجی کی گولی ان کے بچے کی جان لے لے گی۔
جولین نے اس فلم میں ایک الجھے ہوئے فلسطینی معاشرے کو نہایت مہارت سے فلمبند کیا ہے ۔ جس میں امن پسندعوام بھی ہیں اور دہشت گرد اور کرپٹ شہری بھی۔
فلم کا اختتام 1993ءمیں اوسلو میں ہونے والے امن معاہدے پر ہوتا ہے۔جس میں ایک فلسطینی ریاست کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ فلم میں ہند الحسینی میرال کو بتاتی ہے کہ اس نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ایک فلسطینی ریاست کا قیام دیکھ سکے گی اور اس نے واقعی ایسا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔
جولین کوتوقع ہے کہ ان کی فلم سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پر امن بات چیت کا راستہ کھلے گا جیسے مصر اور تیونس میں لوگوں نے پرامن انقلاب بر پا کیاہے۔