وہ ہفتے میں پانچ دن ساحل پر مختلف مجسمے بناتا ہے اور رات میں ان کو بکھیر کر گھر چلا جاتا ہے۔
کراچی کے ساحل پر تفریح کے لیے آئے لوگوں کے ہجوم اور سمندر کی شور مچاتی لہروں سے بے خبر سید عارف حسین مٹی کو مختلف شکلوں میں ڈھالنے میں محو ہے۔
پنجاب کے ضلع رحیم یار خان سے آیا یہ فنکار ایک کسان ہے لیکن گاؤں میں اس کی طبیعت کھیتی باڑی کی طرف مزید مائل نہ رہ سکی اور وہ دس سال قبل اپنے فن کی قدر شناسی کے لیے کراچی پہنچا مگرایک طرف جہاں وہ اپنی گزر بسر پوری ہونے پر مطمیئن ہے وہاں اسے یہ گلہ بھی ہے کہ وہ آج تک ساحل سے آگے جا نہ سکا۔
”میں کراچی اس امید سے آیا تھا کہ یہاں میرے فن کو لوگ پہچانیں گے اور مجھے کسی آرٹ اسکول میں باقاعدہ تعلیم کے لیے داخلہ ملے گا، کسی ایگزیبیشن میں میرے مجسموں کی نمائش ہو گی، کوئی کمپنی مجھے اسپانسر کرے یا پھر کوئی ایسی جگہ جہاں میں اپنا علم دوسروں کو منتقل کرسکوں مگر ٹیلنٹ ہونے کے باوجود آج تک فٹ پاتھ پر ہی بیٹھا ہوں۔ “
عارف حسین نے چند منٹوں میں سمندر کی گیلی ریت سے کئی مجسمے بنا دیے اور اس کا بنایا ہر فن پارہ اپنی جگہ مکمل اور نفیس دکھائی دیتا ہے۔ ’’میں گھر سے بھاگ کر کراچی آیا لیکن میں نے یہاں آ کر خود کو سنبھالا ہے گنوایا نہیں۔ میں فٹ پاتھ پر رہا ہوں لیکن کما کر کھایا ہے۔ قدردان آتے ہیں اور اس ڈبے میں پیسے ڈال جاتے ہیں میں نے زبان سے کسی کو نہیں کہا کہ مجھے پیسے دو۔ میرا فن کہتا ہے کہ مجھے انعام کا حق ہے۔ “
اپنے فن سے مخلص اور آنکھوں میں کچھ کر گزرنے کی چمک لیے یہ نوجوان چولستان کی مٹی سے اٹھا ہے اور اپنا پہلا مجسمہ بھی اس نے اسی مٹی سے ہی بنایا۔
”میرے پاس مٹی ہے اور میرے ہاتھ میں سونا ہے اور یہ خدا کی عنایت ہے۔ میں نہیں جانتا میرے ہاتھ کیسے چلتے ہیں لیکن میں کوئی بھی عمارت آنکھیں بند کرکے بنا سکتا ہوں اور یہی ایک اچھے فنکار کی پہچان ہے۔ “
وہ ہفتے میں پانچ دن ساحل پر مختلف مجسمے بناتا ہے اور رات میں ان کو بکھیر کر گھر چلا جاتا ہے۔ اس کے بقول اس فن سے اس کی اور اس کے گھر والوں کی گزر بسر تو ہوجاتی ہے لیکن یہ اس کے خواب کی تکمیل نہیں ہے۔
حال ہی میں پاکستان کی ایک معروف کمپنی نے عارف سے 14 اگست کو جشن آزادی کے سلسلہ میں رابطہ کیا ہے۔ عارف حسین کا کہنا ہے کہ وہ کسی ایسے مقام کا خواہاں ہیں جہاں اس کا فن اس کے ہاتھوں دوسرے لوگوں تک منتقل ہوتا رہے ۔
پنجاب کے ضلع رحیم یار خان سے آیا یہ فنکار ایک کسان ہے لیکن گاؤں میں اس کی طبیعت کھیتی باڑی کی طرف مزید مائل نہ رہ سکی اور وہ دس سال قبل اپنے فن کی قدر شناسی کے لیے کراچی پہنچا مگرایک طرف جہاں وہ اپنی گزر بسر پوری ہونے پر مطمیئن ہے وہاں اسے یہ گلہ بھی ہے کہ وہ آج تک ساحل سے آگے جا نہ سکا۔
”میں کراچی اس امید سے آیا تھا کہ یہاں میرے فن کو لوگ پہچانیں گے اور مجھے کسی آرٹ اسکول میں باقاعدہ تعلیم کے لیے داخلہ ملے گا، کسی ایگزیبیشن میں میرے مجسموں کی نمائش ہو گی، کوئی کمپنی مجھے اسپانسر کرے یا پھر کوئی ایسی جگہ جہاں میں اپنا علم دوسروں کو منتقل کرسکوں مگر ٹیلنٹ ہونے کے باوجود آج تک فٹ پاتھ پر ہی بیٹھا ہوں۔ “
عارف حسین نے چند منٹوں میں سمندر کی گیلی ریت سے کئی مجسمے بنا دیے اور اس کا بنایا ہر فن پارہ اپنی جگہ مکمل اور نفیس دکھائی دیتا ہے۔ ’’میں گھر سے بھاگ کر کراچی آیا لیکن میں نے یہاں آ کر خود کو سنبھالا ہے گنوایا نہیں۔ میں فٹ پاتھ پر رہا ہوں لیکن کما کر کھایا ہے۔ قدردان آتے ہیں اور اس ڈبے میں پیسے ڈال جاتے ہیں میں نے زبان سے کسی کو نہیں کہا کہ مجھے پیسے دو۔ میرا فن کہتا ہے کہ مجھے انعام کا حق ہے۔ “
اپنے فن سے مخلص اور آنکھوں میں کچھ کر گزرنے کی چمک لیے یہ نوجوان چولستان کی مٹی سے اٹھا ہے اور اپنا پہلا مجسمہ بھی اس نے اسی مٹی سے ہی بنایا۔
”میرے پاس مٹی ہے اور میرے ہاتھ میں سونا ہے اور یہ خدا کی عنایت ہے۔ میں نہیں جانتا میرے ہاتھ کیسے چلتے ہیں لیکن میں کوئی بھی عمارت آنکھیں بند کرکے بنا سکتا ہوں اور یہی ایک اچھے فنکار کی پہچان ہے۔ “
Your browser doesn’t support HTML5
وہ ہفتے میں پانچ دن ساحل پر مختلف مجسمے بناتا ہے اور رات میں ان کو بکھیر کر گھر چلا جاتا ہے۔ اس کے بقول اس فن سے اس کی اور اس کے گھر والوں کی گزر بسر تو ہوجاتی ہے لیکن یہ اس کے خواب کی تکمیل نہیں ہے۔
حال ہی میں پاکستان کی ایک معروف کمپنی نے عارف سے 14 اگست کو جشن آزادی کے سلسلہ میں رابطہ کیا ہے۔ عارف حسین کا کہنا ہے کہ وہ کسی ایسے مقام کا خواہاں ہیں جہاں اس کا فن اس کے ہاتھوں دوسرے لوگوں تک منتقل ہوتا رہے ۔