چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت نے حکومت کی طرف سے تجویز کیے گئے تینوں نام مسترد کر دئیے ہیں جبکہ تحریک انصاف سے اس ضمن میں رابطہ کیا جا رہا ہے۔
اسلام آباد —
پاکستان کی موجودہ منتخب اسمبلی کی آئینی مدت 16 مارچ کو ختم ہو رہی ہے اور نگران وزیراعظم کے لیے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان تاحال کسی نام پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔
اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) نے جمعہ کو نگران وزیراعظم کے لیے پیپلز پارٹی کے تجویز کردہ تینوں نام مسترد کر دیے۔
پارلیمنٹ ہاؤ س میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی طرف سے تجویز کردہ ناموں سے اُن کی جماعت اتفاق نہیں کرتی۔
اُنھوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے نگران وزیراعظم کے لیے تین نام تجویز کیے تھے لیکن اب ان میں سے جسٹس ریٹائرڈ شاکر اللہ جان کا نام واپس لے لیا گیا ہے۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت نے حکومت کی طرف سے تجویز کیے گئے تینوں نام مسترد کر دئیے ہیں جبکہ تحریک انصاف سے اس ضمن میں رابطہ کیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے جمعرات کو نگران وزیراعظم کے لیے تین نام تجویز کیے تھے جن میں سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین اور جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار کھوسو کے نام شامل تھے۔
اُدھر جمعہ کو جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں کہا کہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف قائد حزب اختلاف چوہدری نثار سے مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ نگران وزیراعظم کے لیے موزوں نام تجویز کیا جا سکے۔
تاہم بیان میں کہا گیا کہ اگر کسی ایک نام پر اتفاق نا ہو سکا تو حکومت آئین کے مطابق دو نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دے گی۔
وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات صمصام علی بخاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ
چوہدری نثار نے حکومت کی طرف سے نگران وزیراعظم کے لیے تجویز کردہ جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار کھوسو کے نام پر یہ اعتراض لگایا کہ اُن کے پیپلز پارٹی کی مقتول رہنماء بے نظیر بھٹو سے قریبی مراسم تھے۔
قائد حزب اختلاف کے اس اعتراض پر صمصام بخاری نے کہا کہ ’’اگر کوئی بے نظیر بھٹو کے قریب تھا تو یہ کوئی بری بات نہیں، میرا نہیں خیال کہ ہم کسی کو یہ کہہ کر مسترد کریں کہ وہ نواز شریف کے قریب ہے۔‘‘
آئین کے مطابق قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے تین روز کے اندر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان نگران وزیراعظم کی تقرری پر اگر اتفاق نا ہو سکا تو حکومت اور اپوزیشن کے چار، چار اراکین پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو متفقہ ناموں کی سفارش کرے گی اور اگر پارلیمانی کمیٹی بھی کسی نتیجے پر نا پہنچ سکی تو الیکشن کمیشن حتمی فیصلہ کر کے نگران وزیراعظم کا نام تجویز کرے گا۔
اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) نے جمعہ کو نگران وزیراعظم کے لیے پیپلز پارٹی کے تجویز کردہ تینوں نام مسترد کر دیے۔
پارلیمنٹ ہاؤ س میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی طرف سے تجویز کردہ ناموں سے اُن کی جماعت اتفاق نہیں کرتی۔
اُنھوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے نگران وزیراعظم کے لیے تین نام تجویز کیے تھے لیکن اب ان میں سے جسٹس ریٹائرڈ شاکر اللہ جان کا نام واپس لے لیا گیا ہے۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت نے حکومت کی طرف سے تجویز کیے گئے تینوں نام مسترد کر دئیے ہیں جبکہ تحریک انصاف سے اس ضمن میں رابطہ کیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے جمعرات کو نگران وزیراعظم کے لیے تین نام تجویز کیے تھے جن میں سابق وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین اور جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار کھوسو کے نام شامل تھے۔
اُدھر جمعہ کو جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں کہا کہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف قائد حزب اختلاف چوہدری نثار سے مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ نگران وزیراعظم کے لیے موزوں نام تجویز کیا جا سکے۔
تاہم بیان میں کہا گیا کہ اگر کسی ایک نام پر اتفاق نا ہو سکا تو حکومت آئین کے مطابق دو نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دے گی۔
وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات صمصام علی بخاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ
’’عدم اتفاق کی صورت میں آئین میں طریقہ کار موجود ہے اور یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا جائے گا۔‘‘
چوہدری نثار نے حکومت کی طرف سے نگران وزیراعظم کے لیے تجویز کردہ جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار کھوسو کے نام پر یہ اعتراض لگایا کہ اُن کے پیپلز پارٹی کی مقتول رہنماء بے نظیر بھٹو سے قریبی مراسم تھے۔
قائد حزب اختلاف کے اس اعتراض پر صمصام بخاری نے کہا کہ ’’اگر کوئی بے نظیر بھٹو کے قریب تھا تو یہ کوئی بری بات نہیں، میرا نہیں خیال کہ ہم کسی کو یہ کہہ کر مسترد کریں کہ وہ نواز شریف کے قریب ہے۔‘‘
آئین کے مطابق قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے تین روز کے اندر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان نگران وزیراعظم کی تقرری پر اگر اتفاق نا ہو سکا تو حکومت اور اپوزیشن کے چار، چار اراکین پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو متفقہ ناموں کی سفارش کرے گی اور اگر پارلیمانی کمیٹی بھی کسی نتیجے پر نا پہنچ سکی تو الیکشن کمیشن حتمی فیصلہ کر کے نگران وزیراعظم کا نام تجویز کرے گا۔