اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ’سینکشنز کمیٹی‘ 1267 نے کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے دھڑے جماعت الاحرار کو اُس فہرست میں شامل کر لیا ہے، جن پر بین الاقوامی پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔
سلامتی کونسل کمیٹی کی طرف سے جماعت الاحرار پر پابندیاں عائد ہونے سے تنظیم کے اثاثے منجمد کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو اسلحے کی فراہمی پر پابندی عائد ہوگی۔
واضح رہے کہ پاکستان نے گزشتہ سال جماعت الاحرار پر پابندی عائد کرنے کی تجویز دی تھی۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان کے دفتر سے جاری بیان میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ جماعت الاحرار کے جنگجو افغانستان کے صوبہٴ ننگرہار سے اپنی کارروائی کرتے ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ سال اس تنظیم پر پابندی عائد کی تھی۔
2015 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کو دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہونے اور ان کارروائیوں میں مالی معاونت فراہم کرنے پر اس فہرست میں شامل کر لیا تھا جن پر بین الاقوامی پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔
پاکستان میں رواں سال ہونے والے مختلف دہشت گردوں حملوں کی ذمہ داری جماعت الاحرار قبول کرتی رہی ہے۔
پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے جماعت الاحرار کی قیادت اور پناہ گاہیں مبینہ طور پر افغانستان میں موجود ہیں اور کابل حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اُن کے خلاف کارروائی کرے۔
واضح رہے کہ افغانستان کی حکومت کی طرف سے بھی یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ افغان طالبان کی پناہ گاہیں اب بھی پاکستان میں ہیں جہاں سے عسکریت پسند افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
تاہم، پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
دریں اثنا، جمعہ کو وزیراعظم نواز شریف کی زیر قیادت ’نیشنل سکیورٹی کمیٹی‘ کا اجلاس ہوا جس میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک تھے۔
اس اجلاس میں ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ افغانوں کی زیر قیادت امن عمل کے لیے پاکستان کوششیں جاری رکھے گا۔