فیض کے کلام میں قوموں کی آزادی اور ترقی کی بات نظر آتی ہے اور خصوصاً نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے لیے ولولہ انگیزی کا پیغام دیتی ہے۔
اسلام آباد —
اردو کے شہرہ آفاق شاعر فیض احمد فیض کو دنیا سے رخصت ہوئے 28 برس ہوچلے ہیں۔ ان کا انتقال 20 نومبر 1984ء کو 73 برس کی عمر میں ہوا۔
ان کی شاعری جہان ایک طرف خاص و عام میں بے حد مقبول ہے وہیں انقلابات کا ذکر اور جا بجا امید وبیم کے تذکرے پڑھنے والوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کرتے ہیں۔
فیض احمد فیض معاشی و معاشرتی عدم مساوات، شخصی آزادی و انسانی حقوق کے علمبردار تھے۔ لیکن بائیں بازو کے نظریات کے حامی ہونے اور آمرانہ سوچ کے خلاف لکھنے پر انھیں بہت سی صعوبتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
فیض کی شاعری کے بارے میں معروف دانشور اور کالم نگار کشور ناہید کہتی ہیں کہ ان کے کلام میں قوموں کی آزادی اور ترقی کی بات ملتی ہے اور خصوصاً نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے لیے ولولہ انگیزی کا پیغام دیتی ہے۔
’’ان کےکلام نے ہمیں زندگی میں وہ محبت دی ہے، وہ شعور دیا ہے کہ جس کے توسط ہم آگے بڑھ کے وہ کام کرسکتے ہیں جو کام قوموں کو اٹھا کر اوپر لے کر آتا ہے۔‘‘
کشور ناہید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ فیض احمد فیض کہا کرتے تھے کہ جو کچھ اُن کے زمانے میں ہوتا رہا وہ آئندہ بھی ہوتا رہے گا مگر وہ سمجھتی ہیں فی زمانہ جو حالات ہیں وہ پہلے کی نسبت اور دگرگوں ہوچکے ہیں۔
’’نہ ان کے زمانے میں خودکش حملے تھے، نہ بندوقوں سے آتے جاتے لوگوں کو مارا جاتا تھا، نہ عورتوں پر تیزاب سے حملے ہوتے تھے، نہ غیرت کے نام پر قتل ہوا کرتے تھے، اگر یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا تو یہ بھی فیض کی شاعری میں آپ کو ملتا۔‘‘
فیض احمد فیض نے اپنے وقت میں نہ صرف ملکی بلکہ عالمی حالات سے بھی متاثر ہو کر بے شمار نظمیں کہیں۔ انقلاب چین، افریقہ کی صورتحال، مشرق وسطیٰ خصوصاً فلسطین کا ذکر بھی ان کے ہاں ملتا ہے۔
فیض احمد فیض پہلے ایشیائی شاعر تھے جنہیں روس کا لینن امن ایوارڈ سے نوازا گیا۔
فیض کی برسی کے موقع پر منگل کو ملک میں سماجی و ادبی تنظیموں کی طرف سے مختلف تقاریت کا اہتمام بھی کیا گیا۔
فیض کی شاعری فی زمانہ بھی تازہ معلوم ہوتی ہے اور ان کی برسی پر ان ہی کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
ان کی شاعری جہان ایک طرف خاص و عام میں بے حد مقبول ہے وہیں انقلابات کا ذکر اور جا بجا امید وبیم کے تذکرے پڑھنے والوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کرتے ہیں۔
فیض احمد فیض معاشی و معاشرتی عدم مساوات، شخصی آزادی و انسانی حقوق کے علمبردار تھے۔ لیکن بائیں بازو کے نظریات کے حامی ہونے اور آمرانہ سوچ کے خلاف لکھنے پر انھیں بہت سی صعوبتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
فیض کی شاعری کے بارے میں معروف دانشور اور کالم نگار کشور ناہید کہتی ہیں کہ ان کے کلام میں قوموں کی آزادی اور ترقی کی بات ملتی ہے اور خصوصاً نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے لیے ولولہ انگیزی کا پیغام دیتی ہے۔
’’ان کےکلام نے ہمیں زندگی میں وہ محبت دی ہے، وہ شعور دیا ہے کہ جس کے توسط ہم آگے بڑھ کے وہ کام کرسکتے ہیں جو کام قوموں کو اٹھا کر اوپر لے کر آتا ہے۔‘‘
کشور ناہید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ فیض احمد فیض کہا کرتے تھے کہ جو کچھ اُن کے زمانے میں ہوتا رہا وہ آئندہ بھی ہوتا رہے گا مگر وہ سمجھتی ہیں فی زمانہ جو حالات ہیں وہ پہلے کی نسبت اور دگرگوں ہوچکے ہیں۔
’’نہ ان کے زمانے میں خودکش حملے تھے، نہ بندوقوں سے آتے جاتے لوگوں کو مارا جاتا تھا، نہ عورتوں پر تیزاب سے حملے ہوتے تھے، نہ غیرت کے نام پر قتل ہوا کرتے تھے، اگر یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا تو یہ بھی فیض کی شاعری میں آپ کو ملتا۔‘‘
فیض احمد فیض نے اپنے وقت میں نہ صرف ملکی بلکہ عالمی حالات سے بھی متاثر ہو کر بے شمار نظمیں کہیں۔ انقلاب چین، افریقہ کی صورتحال، مشرق وسطیٰ خصوصاً فلسطین کا ذکر بھی ان کے ہاں ملتا ہے۔
فیض احمد فیض پہلے ایشیائی شاعر تھے جنہیں روس کا لینن امن ایوارڈ سے نوازا گیا۔
فیض کی برسی کے موقع پر منگل کو ملک میں سماجی و ادبی تنظیموں کی طرف سے مختلف تقاریت کا اہتمام بھی کیا گیا۔
فیض کی شاعری فی زمانہ بھی تازہ معلوم ہوتی ہے اور ان کی برسی پر ان ہی کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے