پاکستان کے عام انتخابات کے غیر حتمی نتائج میں اب تک یہ سامنے آیا ہے کہ قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والوں میں سب سے زیادہ تعداد ایسے آزاد ارکان کی ہے جنہیں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت تحریکِ انصاف کی حمایت حاصل تھی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اب تک قومی اسمبلی کی 266 میں سے 264 نشستوں کا غیر حتمی نتیجہ جاری کیا ہے جس کے مطابق کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کی تعداد 101 ہے جب کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) 75 اور پاکستان پیپلز پارٹی 54 نشستوں کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔
قومی اسمبلی کی عام نشستوں میں سے این اے آٹھ باجوڑ کا انتخاب ملتوی ہوگیا تھا اور این اے 88 کا غیر حتمی نتیجہ روک لیا گیا ہے۔
متعدد حلقوں میں غیر حتمی نتائج کو چیلینج کیا گیا ہے۔ تاہم مقامی میڈیا کے مطابق اب تک سامنے آنے والے نتائج کے مطابق کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں میں سے 93 یا 94 تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ ہیں۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو واضح برتری حاصل ہے جب کہ پنجاب میں کامیاب ہونے والے 138 آزاد ارکان کی اکثریت بھی پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ ہے۔
پی ٹی آئی کو یہ انتخابی کامیابی ایسے وقت میں ملی ہے جب پارٹی کے بانی اور سابق وزیرِاعظم عمران خان گزشتہ کئی ماہ سے جیل میں ہیں اور ان پر چلنے والے متعدد مقدمات میں سے تین میں انہیں اور ان کی اہلیہ کو سزائیں بھی ہوچکی ہیں۔
جماعت کی دیگر قیادت اور کارکنان کو نو مئی 2023 کے بعد کریک ڈاؤں کا سامنا ہے جسے مبینہ طور پر پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کے کئی سینئر رہنما مبینہ ریاستی دباؤ میں پارٹی سے راہیں الگ کرچکے تھے اور پارٹی انتخابی نشان سے بھی محروم ہوچکی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایسے حالات میں سیاسی مبصرین پی ٹی آئی کو بڑی تعداد میں ملنے والے ووٹوں کو بنیادی طور پر ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے لیے پیغام قرار دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی نمائندہ سارہ زمان سے بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ رائے دہندگان نے جس طرح پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ووٹ دیا ہے وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے لیے پیغام ہے کہ ان کی پالیسیاں عام لوگوں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے سینٹر برائے جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر دی گئی رائے میں کہا کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز نے ملک کی فوج کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ اسے انتخاب کے نتائج پر اثر انداز نہیں ہونے دیں گے۔
تاہم تحریکِ انصاف کے سینئر رہنما ولید اقبال کا کہنا ہے کہ یہ دراصل ہر پی ٹی آئی مخالف قوت کے خلاف ملنے والا ووٹ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ووٹ پی ٹی آئی کے خلاف ہونے والی انتقامی کارروائیوں پر رائے دہندگان کی ناراضی کا اظہار ہے۔
'رویے میں لچک نہیں آئے گی'
انتخابی نشان نہ ملنے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لیا تھا۔ ان امیدواروں کے لیے کسی دوسری جماعت کی حمایت کرنے پر کوئی قانونی قدغن نہیں ہے۔
نتائج کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت قومی اسمبلی میں حکومت سازی کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں کرسکی ہے۔ اس لیے حکومت بنانے کے لیے آزاد امیدواروں کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔
ایسے حالات میں پی ٹی آئی کے رہنما ولید اقبال نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان کی جماعت کے آزاد امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کرانے کی کوشش کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے دھونس، دھمکی اور لالچ سمیت کئی طریقے آزمائے جا سکتے ہیں۔
اگرچہ پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر گوہر وفاق اور پنجاب میں حکومت سازی کا عندیہ دے چکے ہیں لیکن پی ٹی آئی اپنے آزاد امیدواروں کے ساتھ بھی تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ وفاق میں عددی برتری ہونے کے باجوود پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے امکانات نظر نہیں آتے۔
حسن عسکری رضوی کے مطابق پی ٹی آئی کی حیران کُن انتخابی کامیابی ممکنہ طور اسٹیبلشمنٹ کی گرفت کمزور نہیں کرسکے گی اور نہ ہی اسے اتحادی حکومت بنانے دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں وہ اسٹیبلشمنٹ کے رویے میں پی ٹی آئی کے لیے کسی لچک یا مفاہمت کا امکان نہیں دیکھتے۔
تحریک انصاف کی جانب سے جاری کردہ عمران خان کی اے آئی جنریٹڈ 'وکٹری اسپیچ' میں انتخابی نتائج کو ان کی جماعت کے نعرے 'حقیقی آزادی' کی جیت قرار دیا گیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے جمعے کو اپنی تقریر میں کہا تھا کہ وہ قومی اسمبلی اور پنجاب میں سب سے بڑی پارٹی ہیں اور دونوں اسمبلیوں میں مخلوط حکومت بنائیں گے۔
بے یقینی کا ایک اور دور؟
گزشتہ پی ڈی ایم حکومت کا حصہ رہنے والی سیاسی جماعتوں میں ہفتے سے حکومت سازی کے لیے رابطے شروع ہوچکے ہیں تاہم ابھی تک اس بارے میں کوئی صورتِ حال واضح نہیں ہوئی ہے۔
ادھر پاکستان تحریکِ انصاف، جماعتِ اسلامی، جمیعت علمائے اسلام اور بلوچستان کی کم و بیش سبھی جماعتین مختلف حلقوں کے انتخابی نتائج میں دھاندلی کے الزامات کے ساتھ احتجاج کے لیے سڑکوں پر ہیں۔
ایسے حالات میں مبصرین کا خیال ہے کہ انتخابات کے بعد ایک بار پھر پاکستان کو بے یقینی کے ایک طویل دور کا سامنا ہوسکتا ہے۔
مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فوج چاہتی ہے کہ آئندہ حکومت معاشی بحالی کے لیے یکسوئی سے کام کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ اس کے بعد کچھ برس جیل میں رکھ کر عمران خان کے جن کو بوتل میں بند کیا جاسکتا ہے لیکن اس طرح کرنے سے پی ٹی آئی کے حامیوں کا غم و غصہ بڑھے گا اور چیلنجز میں مزید اضافہ ہوگا۔