کیا ٹی وی سکرین کے ایک چینل پر ’بلیک فریم‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے کچھ حلقے خوشی منائیں جبکہ کچھ اسے آزادی ِ صحافت پر قدغن قرار دیں، کچھ حلقے پیمرا تو کچھ اس معاملے پر حکومتی کردار پر انگلیاں اٹھائیں؟
واشنگٹن —
جس وقت یہ سطریں لکھی جا رہی ہیں، جیو نیوز کی بندش کو کئی گھنٹے گزر چکے ہیں۔ ہمارے دفتر میں جو چینل جیو نیوز کے لیے مختص ہے، اب وہاں پر سیاہ سکرین (بلیک فریم) دکھائی دے رہی ہے۔۔۔ اگلے 15 روز تک اس سکرین نے یونہی رہنا ہے اور اگر جیو جرمانے کی رقم ادا کرنے سے قاصر رہا تو یہ سکرین لامحدود وقت تک سیاہ رہ سکتی ہے۔۔۔
تو کیا ٹی وی سکرین کے ایک چینل پر نشریات کی جگہ ’بلیک فریم‘ کے نشر ہونے تک کا عمل اتنا ہی آسان ہے؟ ماہرین اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔۔۔ کچھ کے نزدیک احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا اور کچھ کے نزدیک صحافتی اقدار پر سختی سے کاربند رہنا ہی کسی ایسی صورتحال سے بچاؤ ممکن بنا سکتا ہے جس کا اس وقت جیو نیوز کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔۔۔
پیمرا نے پاکستان کے اہم اور بڑے نیوز چینل جیو کا لائسنس 15 روز کے لیے معطل کر دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جیو نیوز کو ایک کروڑ روپیہ بطور جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
ہمارے معاشرے کے بہت سے پہلوؤں میں سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے پیمرا کے جس ممکنہ فیصلے پر سبھی کی نظریں جمی تھیں، اسے ملک بھر کے مختلف حلقوں میں الگ انداز میں وصول کیا گیا ہے۔۔۔ کسی نے ڈنکے کی چوٹ پر خوشی منائی تو کسی نے اسے آزادی ِصحافت پر قدغن قرار دیا، کسی نے ’پیمرا‘ کے کردار پر سوال اٹھایا تو کسی نے حکومتی ایوانوں کے کردار پر چہ مگوئیاں کیں۔۔۔
پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے ’پیمرا‘ کی جانب سے جیو نیوز کی بندش کا فیصلہ یقیناً آج کی اتنی ہی بڑی خبر تھی کہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما الطاف حسین کے ہسپتال سے نکلنے اور پولیس سٹیشن پہنچنے کی خبر بھی جیسے اس خبر کے سامنے دب سی گئی۔۔۔
عمران اسلم جیو نیوز نیٹ ورک کے صدر ہیں اور کہتے ہیں کہ پیمرا کی جانب سے یہ فیصلہ اچانک سامنے آیا ہے۔
عمران اسلم کے الفاظ، ’ آج یہ اچانک ہی فیصلہ ہوا ہے اور اس میں نہ ہمیں سنا گیا۔ ہم اسے دیکھیں گے اور چیلنج بھی کریں گے لیکن ایشو یہی ہے کہ انہوں نے فیصلہ سنا دیا ہے اور یہ کہ وہ چاہ رہے ہیں کہ جہاں پر بھی جیو نیوز چلایا جا رہا ہے اسے بند کر دیا جائے‘۔
ادارتی سمجھ بوجھ کے فقدان کے باعث ہونے والی غلطی پر پیمرا کے فیصلے پر جیو نیوز کے نائب صدر عامر لیاقت حسین کا کہنا ہے کہ جیو گذشتہ 45 دن سے بند ہے تو پھر 15 دن کے لیے لائسنس کی معطلی کا مقصد کچھ سمجھ نہیں آتا۔
عامر لیاقت کہتے ہیں، ’مجھے تو بہت حیرانی ہوئی ہے کیونکہ اب کیا 15 دن کے لیے یہ بند کریں گے انہوں نے تو 45 دن سے ویسے ہی ہمیں بند رکھا ہوا ہے۔ یکطرفہ فیصلہ پیمرا نے سنایا ہے اور جیو کے موقف کو سنا نہیں گیا اور یہ نہیں دیکھا پیمرا نے کہ سپریم کورٹ نے کیا حکم دیا ہے؟ سپریم کورٹ نے تو جیو کے چینلز کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا‘۔
مگر عامر لیاقت حسین یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی ذاتی رائے میں جیو نیوز کی جانب سے اخبارات میں شائع کی گئی معافی کو مکمل طور پر ’غیر مشروط معافی‘ قرار دینا بھی غلط ہوگا۔
عامر لیاقت کے الفاظ، ’میرا اپنا نقطہ ِنظر ہے اور میں آزاد ہوں اسے بیان کرنے میں، میں اس معافی کو غیر مشروط نہیں مانتا۔ غیر مشروط معافی کا مطلب جو میں نے پڑھا ہے بچپن سے لے کر اب تک کہ غیر مشروط معافی میں وضاحت نہیں ہوتیں۔ سوری صرف سوری ہوتا ہے اور اس میں کوئی وضاحتیں نہیں ہوتیں۔
چلیے اس بحث کو چھوڑ دیتے ہیں کہ جیو کی طرف سے مانگی جانے والی معافی غیر مشروط تھی یا کہ مشروط۔۔۔ اس بحث سے بھی قطع ِنظر کہ جیو کی غلطی کتنی بڑی تھی اور اس کی سزا کتنی بڑی ہونی چاہیئے۔۔۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ الیکٹرانک میڈیا کا ایک مضبوط گروپ اپنی غلطی پر بظاہر نادم دکھائی دیا ہے۔۔۔
مگر اس سارے قصے میں ایک اہم فریق ’پیمرا‘ کہاں نظر آیا اور اس کا کیا کردار رہا؟ اس سوال نے ان تمام ذہنوں میں کہیں نہ کہیں سر ضرور اٹھایا جو میڈیا کے بحران کا گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے باریکی سے جائزہ لے رہے تھے۔۔۔
’پیمرا‘ کی پرائیویٹ رکن اور خیبر پختونخواہ کی نمائندگی کرنے والی فریحہ افتخار نے تسلیم کیا کہ پیمرا کے باہمی اختلافات اب بہت واضح ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف فریحہ نے اس موقف کا بھی اظہار کیا کہ پیمرا کی جانب سے جیو کی عارضی بندش کا فیصلہ غلط ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
فریحہ افتخار کہتی ہیں کہ، ’جہاں تک آج کی میٹنگ کی بات ہے تو وہ تو کسی صورت بھی جائز نہیں ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آج کی میٹنگ قائم مقام چئیرمین کی کال پر بلائی گئی اور انکا کوئی کردار نہیں ہے پیمرا کے آرڈینینس میں۔ تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان کی اپنی تعیناتی بھی قانونی ہے یا نہیں۔ دوسری بات کیا وہ میٹنگ کال کرنے کے مجاز تھے اور اگر وہ نہیں تھے تو اس کے بعد جو فیصلہ آیا اس کی حیثیت کیا رہتی ہے تو یہ ایسے سوالات ہیں جو ہمیں قانونی طور پر ابھی دیکھنے ہیں‘۔
’پیمرا‘ کی بظاہر باہمی تقسیم، جیو کے لائسنس کی عارضی معطلی اور خود پیمرا اراکین کی جانب سے قائم مقام چئیرمین کی تقرری کے بارے میں تحفظات کے جوابات کے لیے ہم نے پیمرا کے قائم مقام چئیرمین پرویز راٹھور سے رابطہ کیا۔ مگر راٹھور صاحب نے شائستگی سے اس موضوع پر میڈیا سے گفتگو کرنے سے معذرت کر لی اور کہا کہ وہ کسی قسم کے متنازع بیان سے اجتناب چاہتے ہیں۔
فریحہ افتخار کا یہ بھی کہنا تھا کہ جیو نیوز کے معاملے کے بعد مختلف تنازعات نے جنم لیا جس میں حکومت بھی قصوروار ہے۔ فریحہ افتخار کا کہنا تھا کہ، ’ جیو کا جب ایشو شروع ہوا اور حامد میر پر حملہ ہوا تو منسٹری آف ڈیفینس کی شکایت آگئی۔ اب چاہیئے تو یہ تھا کہ اس پر ایک ہنگامی میٹنگ بلائی جاتی جیسے کہ کل رات بلائی گئی اور اس معاملے پر غور کرکے کسی نتیجے پر پہنچا جاتا۔ لیکن حکومت نے اس ایشو کو اتنا لائیٹ لیا اور اسے طُول دینے کی کوشش کی۔ پہلی دو میٹنگز میں تو اس کا ذکر تک نہ آیا اور جب پرائیویٹ ممبران نے آواز بلند کرنے کی کوشش کی کہ دیکھیں ہم کیا کر رہے ہیں پورا ملک ہم پہ آنکھیں لگائے بیٹھا ہے کہ کیا فیصلہ آنا ہے اور جیو نیوز کے بعد دوسرا مسئلہ جیو انٹرٹینمنٹ کا بھی آگیا تو حکومت بالکل بھی اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتی تھی‘۔
دوسری جانب جیو نیوز کے نائب صدر عامر لیاقت حسین بھی حکومت پر کڑی تنقید کرتے دکھائی دئیے۔ عامر لیاقت کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ادارے پر واضح کر دیا تھا کہ اگر جیو کو نقصان پہنچا تو وہ حکومت کی طرف سے ہی پہنچے گا۔
عامر لیاقت کے الفاظ، ’دیکھیں پہلی بات تو یہ ہے کہ میرا تو حکومت پر کوئی اعتماد اور بھروسہ نہیں ہے اور میں یہ بات اپنے ادارے میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر ہمیں نقصان پہنچا تو وہ حکومت کی طرف سے ہی پہنچے گا اور یہ جو حکومت نے اس معاملے کو طول دینے کے لیے حربے استعمال کیے ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے معاملے کو لٹکا کر رکھا ہے۔ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ کسی بھی طرح سے ہم شاید کسی بھی چینل پر پابندی نہیں لگائیں گے اور یہ داغ ہم پر نہیں لگنا چاہیئے یہ بدنما داغ۔ تو یہ کوشش کرتے رہے کہ ادھر بھی خوش رکھیں اور ادھر بھی خوش رکھیں لیکن بہرحال انہوں نے وہی کیا جو انہوں نے کرنا تھا‘۔
تو کیا واقعی حکومت نے اس سارے معاملے میں ایک ’خاموش تماشائی‘ کا کردار ادا کیا؟
پاکستان کے بہت سے حلقوں کو اس پورے قصے میں حکومتی کردار پر نہ صرف مایوسی ہوئی بلکہ وہ کھلے الفاظ میں حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بناتے رہے ہیں۔
ہم نے حکومتی موقف جاننے کے لیے بارہا وفاقی وزیر ِاطلاعات و نشریات پرویز رشید سے رابطے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ ہم نے وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی برائے قومی اُمور عرفان صدیقی سے بھی رابطہ کیا، مگر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ اس معاملے پر وزارت ِاطلاعات و نشریات کی جانب سے ہی کوئی موقف سامنے آئے۔
میڈیا کے اندرونی حلقوں میں اب ایک سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری میڈیا بحران کے بعد جیو نیوز کے لائسنس کی عارضی معطلی اور جرمانہ اس ڈرامے کا ’ڈراپ سین‘ ہے یا پھر ایک نئے ڈرامے کی ابتدائی قسط ثابت ہوگی؟
یہ رپورٹ نیچے دئیے گئے آڈیو لنک میں سنیئے۔
تو کیا ٹی وی سکرین کے ایک چینل پر نشریات کی جگہ ’بلیک فریم‘ کے نشر ہونے تک کا عمل اتنا ہی آسان ہے؟ ماہرین اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔۔۔ کچھ کے نزدیک احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنا اور کچھ کے نزدیک صحافتی اقدار پر سختی سے کاربند رہنا ہی کسی ایسی صورتحال سے بچاؤ ممکن بنا سکتا ہے جس کا اس وقت جیو نیوز کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔۔۔
پیمرا نے پاکستان کے اہم اور بڑے نیوز چینل جیو کا لائسنس 15 روز کے لیے معطل کر دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جیو نیوز کو ایک کروڑ روپیہ بطور جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
ہمارے معاشرے کے بہت سے پہلوؤں میں سے ایک پہلو یہ بھی ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے پیمرا کے جس ممکنہ فیصلے پر سبھی کی نظریں جمی تھیں، اسے ملک بھر کے مختلف حلقوں میں الگ انداز میں وصول کیا گیا ہے۔۔۔ کسی نے ڈنکے کی چوٹ پر خوشی منائی تو کسی نے اسے آزادی ِصحافت پر قدغن قرار دیا، کسی نے ’پیمرا‘ کے کردار پر سوال اٹھایا تو کسی نے حکومتی ایوانوں کے کردار پر چہ مگوئیاں کیں۔۔۔
پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کے نگران ادارے ’پیمرا‘ کی جانب سے جیو نیوز کی بندش کا فیصلہ یقیناً آج کی اتنی ہی بڑی خبر تھی کہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما الطاف حسین کے ہسپتال سے نکلنے اور پولیس سٹیشن پہنچنے کی خبر بھی جیسے اس خبر کے سامنے دب سی گئی۔۔۔
عمران اسلم جیو نیوز نیٹ ورک کے صدر ہیں اور کہتے ہیں کہ پیمرا کی جانب سے یہ فیصلہ اچانک سامنے آیا ہے۔
عمران اسلم کے الفاظ، ’ آج یہ اچانک ہی فیصلہ ہوا ہے اور اس میں نہ ہمیں سنا گیا۔ ہم اسے دیکھیں گے اور چیلنج بھی کریں گے لیکن ایشو یہی ہے کہ انہوں نے فیصلہ سنا دیا ہے اور یہ کہ وہ چاہ رہے ہیں کہ جہاں پر بھی جیو نیوز چلایا جا رہا ہے اسے بند کر دیا جائے‘۔
ادارتی سمجھ بوجھ کے فقدان کے باعث ہونے والی غلطی پر پیمرا کے فیصلے پر جیو نیوز کے نائب صدر عامر لیاقت حسین کا کہنا ہے کہ جیو گذشتہ 45 دن سے بند ہے تو پھر 15 دن کے لیے لائسنس کی معطلی کا مقصد کچھ سمجھ نہیں آتا۔
عامر لیاقت کہتے ہیں، ’مجھے تو بہت حیرانی ہوئی ہے کیونکہ اب کیا 15 دن کے لیے یہ بند کریں گے انہوں نے تو 45 دن سے ویسے ہی ہمیں بند رکھا ہوا ہے۔ یکطرفہ فیصلہ پیمرا نے سنایا ہے اور جیو کے موقف کو سنا نہیں گیا اور یہ نہیں دیکھا پیمرا نے کہ سپریم کورٹ نے کیا حکم دیا ہے؟ سپریم کورٹ نے تو جیو کے چینلز کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا‘۔
مگر عامر لیاقت حسین یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی ذاتی رائے میں جیو نیوز کی جانب سے اخبارات میں شائع کی گئی معافی کو مکمل طور پر ’غیر مشروط معافی‘ قرار دینا بھی غلط ہوگا۔
عامر لیاقت کے الفاظ، ’میرا اپنا نقطہ ِنظر ہے اور میں آزاد ہوں اسے بیان کرنے میں، میں اس معافی کو غیر مشروط نہیں مانتا۔ غیر مشروط معافی کا مطلب جو میں نے پڑھا ہے بچپن سے لے کر اب تک کہ غیر مشروط معافی میں وضاحت نہیں ہوتیں۔ سوری صرف سوری ہوتا ہے اور اس میں کوئی وضاحتیں نہیں ہوتیں۔
چلیے اس بحث کو چھوڑ دیتے ہیں کہ جیو کی طرف سے مانگی جانے والی معافی غیر مشروط تھی یا کہ مشروط۔۔۔ اس بحث سے بھی قطع ِنظر کہ جیو کی غلطی کتنی بڑی تھی اور اس کی سزا کتنی بڑی ہونی چاہیئے۔۔۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ الیکٹرانک میڈیا کا ایک مضبوط گروپ اپنی غلطی پر بظاہر نادم دکھائی دیا ہے۔۔۔
مگر اس سارے قصے میں ایک اہم فریق ’پیمرا‘ کہاں نظر آیا اور اس کا کیا کردار رہا؟ اس سوال نے ان تمام ذہنوں میں کہیں نہ کہیں سر ضرور اٹھایا جو میڈیا کے بحران کا گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے باریکی سے جائزہ لے رہے تھے۔۔۔
’پیمرا‘ کی پرائیویٹ رکن اور خیبر پختونخواہ کی نمائندگی کرنے والی فریحہ افتخار نے تسلیم کیا کہ پیمرا کے باہمی اختلافات اب بہت واضح ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف فریحہ نے اس موقف کا بھی اظہار کیا کہ پیمرا کی جانب سے جیو کی عارضی بندش کا فیصلہ غلط ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
فریحہ افتخار کہتی ہیں کہ، ’جہاں تک آج کی میٹنگ کی بات ہے تو وہ تو کسی صورت بھی جائز نہیں ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آج کی میٹنگ قائم مقام چئیرمین کی کال پر بلائی گئی اور انکا کوئی کردار نہیں ہے پیمرا کے آرڈینینس میں۔ تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان کی اپنی تعیناتی بھی قانونی ہے یا نہیں۔ دوسری بات کیا وہ میٹنگ کال کرنے کے مجاز تھے اور اگر وہ نہیں تھے تو اس کے بعد جو فیصلہ آیا اس کی حیثیت کیا رہتی ہے تو یہ ایسے سوالات ہیں جو ہمیں قانونی طور پر ابھی دیکھنے ہیں‘۔
’پیمرا‘ کی بظاہر باہمی تقسیم، جیو کے لائسنس کی عارضی معطلی اور خود پیمرا اراکین کی جانب سے قائم مقام چئیرمین کی تقرری کے بارے میں تحفظات کے جوابات کے لیے ہم نے پیمرا کے قائم مقام چئیرمین پرویز راٹھور سے رابطہ کیا۔ مگر راٹھور صاحب نے شائستگی سے اس موضوع پر میڈیا سے گفتگو کرنے سے معذرت کر لی اور کہا کہ وہ کسی قسم کے متنازع بیان سے اجتناب چاہتے ہیں۔
فریحہ افتخار کا یہ بھی کہنا تھا کہ جیو نیوز کے معاملے کے بعد مختلف تنازعات نے جنم لیا جس میں حکومت بھی قصوروار ہے۔ فریحہ افتخار کا کہنا تھا کہ، ’ جیو کا جب ایشو شروع ہوا اور حامد میر پر حملہ ہوا تو منسٹری آف ڈیفینس کی شکایت آگئی۔ اب چاہیئے تو یہ تھا کہ اس پر ایک ہنگامی میٹنگ بلائی جاتی جیسے کہ کل رات بلائی گئی اور اس معاملے پر غور کرکے کسی نتیجے پر پہنچا جاتا۔ لیکن حکومت نے اس ایشو کو اتنا لائیٹ لیا اور اسے طُول دینے کی کوشش کی۔ پہلی دو میٹنگز میں تو اس کا ذکر تک نہ آیا اور جب پرائیویٹ ممبران نے آواز بلند کرنے کی کوشش کی کہ دیکھیں ہم کیا کر رہے ہیں پورا ملک ہم پہ آنکھیں لگائے بیٹھا ہے کہ کیا فیصلہ آنا ہے اور جیو نیوز کے بعد دوسرا مسئلہ جیو انٹرٹینمنٹ کا بھی آگیا تو حکومت بالکل بھی اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتی تھی‘۔
دوسری جانب جیو نیوز کے نائب صدر عامر لیاقت حسین بھی حکومت پر کڑی تنقید کرتے دکھائی دئیے۔ عامر لیاقت کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ادارے پر واضح کر دیا تھا کہ اگر جیو کو نقصان پہنچا تو وہ حکومت کی طرف سے ہی پہنچے گا۔
عامر لیاقت کے الفاظ، ’دیکھیں پہلی بات تو یہ ہے کہ میرا تو حکومت پر کوئی اعتماد اور بھروسہ نہیں ہے اور میں یہ بات اپنے ادارے میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر ہمیں نقصان پہنچا تو وہ حکومت کی طرف سے ہی پہنچے گا اور یہ جو حکومت نے اس معاملے کو طول دینے کے لیے حربے استعمال کیے ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے معاملے کو لٹکا کر رکھا ہے۔ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ کسی بھی طرح سے ہم شاید کسی بھی چینل پر پابندی نہیں لگائیں گے اور یہ داغ ہم پر نہیں لگنا چاہیئے یہ بدنما داغ۔ تو یہ کوشش کرتے رہے کہ ادھر بھی خوش رکھیں اور ادھر بھی خوش رکھیں لیکن بہرحال انہوں نے وہی کیا جو انہوں نے کرنا تھا‘۔
تو کیا واقعی حکومت نے اس سارے معاملے میں ایک ’خاموش تماشائی‘ کا کردار ادا کیا؟
پاکستان کے بہت سے حلقوں کو اس پورے قصے میں حکومتی کردار پر نہ صرف مایوسی ہوئی بلکہ وہ کھلے الفاظ میں حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بناتے رہے ہیں۔
ہم نے حکومتی موقف جاننے کے لیے بارہا وفاقی وزیر ِاطلاعات و نشریات پرویز رشید سے رابطے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔ ہم نے وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی برائے قومی اُمور عرفان صدیقی سے بھی رابطہ کیا، مگر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ اس معاملے پر وزارت ِاطلاعات و نشریات کی جانب سے ہی کوئی موقف سامنے آئے۔
میڈیا کے اندرونی حلقوں میں اب ایک سوال یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری میڈیا بحران کے بعد جیو نیوز کے لائسنس کی عارضی معطلی اور جرمانہ اس ڈرامے کا ’ڈراپ سین‘ ہے یا پھر ایک نئے ڈرامے کی ابتدائی قسط ثابت ہوگی؟
یہ رپورٹ نیچے دئیے گئے آڈیو لنک میں سنیئے۔
Your browser doesn’t support HTML5