2013ء کے پاکستان کی ٹائم لائن پر کوئٹہ دھماکے، عباس ٹاؤن، جوزف کالونی اور پروین رحمان کے خون کے چھینٹے دور دور تک پھیلے ہیں۔ پاکستان کا عام آدمی نامعلوم سمت سے آنے والی گولیوں کے سامنے سینہ سپر سموسے تل رہا ہے، سامان ڈھو رہا ہے، صبح سے شام کررہا ہے۔۔ میں 24 گھنٹے پاکستان کے نام پر غور کر رہی ہوں۔
—
میرے فیس بک اور ٹویٹر کی نیوز فیڈ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ایک سماجی کارکن پروین رحمان کی تصویروں سے بھری پڑی ہے۔۔ میں نہیں جانتی یہ میرا وہم ہے یا کیا۔۔ مگر، میرے ہم پیشہ ساتھیوں کا زور اب شائد ریٹنگ کی دوڑ میں بھاگتے نیوز چینلز پر کم اور فیس بک کے سٹیٹس اپ ڈیٹس پر زیادہ چل رہا ہے۔
پاکستان کا ہر سوچنے سمجھنے والا شخص ناراض ہے۔۔ غصے میں ہے۔ پاؤں پٹخ رہا ہے۔۔ اور چونکہ اس کا زور کسی ’ناصحیح ‘ کو صحیح کرنے پر نہیں چل رہا۔۔ اپنے فیس بک کا سٹیٹس اپ ڈیٹ کرکے ہی دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی نبض پاکستان کی طرح چل رہی ہے۔۔۔تیز تیز۔۔۔ اور تیز ۔۔ڈوب ڈوب کر ابھرتی۔۔۔ابھر ابھر کر ڈوبتی۔
ابھی ابھی میں نے دیکھا، پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی خاتون سماجی کارکن کا جنازہ پڑھانے کے لئے کتنے بہت سے لوگ جمع ہوئے۔۔ ان میں سے کس کے ہاتھ پر پروین رحمان کا لہو تلاش کیا جائے گا؟
شائد، پاکستان کی تجارتی شہ رگ کے کچھ پر اسرار ہاتھ اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تھوڑی بہت مدد کر سکیں ۔ جنہیں اپنی کارکردگی حلال کرنے کے لئے فائلوں کا پیٹ تو بھرنا ہی ہے۔۔ مگر، اس کے بعد کیا ہوگا؟۔۔ شائد کچھ نہیں۔
پھر بھی، اگر کسی کو اپنے ملک پاکستان کی تاریخ کے کچھ نامعلوم اور نہ سمجھ میں آنے والے ابواب جاننے میں دلچسپی ہو۔۔ تو اسے امریکی صحافی اسٹیو انسکیپ کی کتاب،
Instant City: Life and Death in Karachi ،ایک بار تو ضرور پڑھنی چاہئے۔
یہ وہ کتاب ہے، جس نے مجھے پروین رحمان سے ابھی کچھ دن پہلے ہی متعارف کروایا تھا۔
وہی پروین رحمان جنہیں غریبوں کی کچی بستیوں میں رہنے والوں کی بہبود کی بڑی فکر تھی۔ اور جنہیں نامعلوم افراد نے بےحد کامیابی سے ہمیشہ کے لئے خاموش کروا دیا۔
مگر اس کتاب میں پروین رحمان جیسے کچھ اور سرپھروں کا ذکربھی ہے، جو نامعلوم افراد کے نامعلوم مقاصد کے راستے میں کہیں سے خواہ مخواہ ہی آجاتے ہیں۔ ناحق اپنی جان سے جاتے ہیں۔
’انسٹنٹ سٹی: لائف اینڈ ڈیتھ ان کراچی‘ کے ابتدائی صفحات پڑھنے کے دوران میرا پہلا ردعمل یہ تھا کہ کراچی جیسے دیوزاد شہر میں ایسے طاقتور عناصر سے دشمنیاں مول لینا کوئی عقلمندی کی بات ہے ہی نہیں۔۔ کسی بھی عام آدمی کو ،چاہے وہ پروین رحمان ہوں یا کوئی اور۔۔ جس کے پاس دولت اور سیاسی جمع خرچ کا لوٹا ہوا مال غنیمت نہیں ہے، کتنی دیر تک برداشت کیا جائے گا؟ میں ابھی اس باکمال کتاب کو صفحہ نمبر 100 سے آگے نہیں پڑھ سکی۔۔۔لیکن میرا خدشہ سچ ثابت ہوگیا ہے۔
پاکستان میں اور کتنی پروین رحمان ہوں گی۔۔بظاہر کمزورنظر آنےوالی عورتیں، جن کے عزائم نے غنڈوں اور رسہ گیروں کی دم پر پاؤں رکھا ہوگا ۔ میں نہیں جانتی۔۔ لیکن اتنا سمجھتی ہوں کہ آخر پاکستان انہیں کب تک برداشت کرے گا ؟
2013ء کے پاکستان کی ٹائم لائن پر کوئٹہ دھماکے، عباس ٹاؤن، جوزف کالونی اور پروین رحمان کے خون کے چھینٹے دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ ملک کی کامیاب عوامی جمہوریت ایک بار پھر نئی انتخابی آزمائش سے گزرنے والی ہے۔۔ اور پاکستان کا عام آدمی نامعلوم افراد کی نامعلوم سمت سے آنے والی گولیوں کے سامنے سینہ سپر سموسے تل رہا ہے، سبزی بیچ رہا ہے، تنور پر روٹیاں لگا رہا ہے، بے روزگاری کے جن سے خوفزدہ دن سے رات کرنے میں مصروف ہے۔۔ پیٹ بھر کھانے، رات گزارنے لائق بجلی، کھانا پکانے لائق ایندھن ،بچوں کی کتابوں، کاپیوں، بستوں کی فکر کر رہا ہے۔
روٹی، کپڑے اور مکان کی کوئی بھی ضمانت اس کے کسی بھی انسانی مسئلے کا فوری علاج مہیا کرنے سے قاصر ہے۔ پھر بھی وہ ہر روز طلوع ہونے
والے نئےسورج کے ساتھ، کسی نامعلوم امید کا سرا پکڑ کر، اپنا رستہ ڈھونڈنے، اپنے بچوں کا رزق تلاش کرنے گھر سے نکلتا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ شام ڈھلنے پر ہونےو الی واپسی اپنے پیروں پر ہوگی یا کسی امدادی ادارے کی ایمبولنس پر؟
شائد آپ سوچ رہے ہیں کہ میں بھی واشنگٹن کے میز کرسی والے دفتر میں بیٹھ کر مذموم عزائم والے امریکی میڈیا کے اسی پراپیگنڈے کا پرچار کرنے والی ہوں، جسے پاکستان میں آج تک کبھی کوئی روشن پہلو دکھائی نہیں دیا۔۔ شائد آپ ٹھیک سوچ رہے ہوں۔
لیکن، میں ان دنوں ایک عجیب الجھن میں گرفتار ہوں ۔ صبح شام ہر وقت مجھے ایک ہی کام ہے۔ میں چوبیسوں گھنٹے پاکستان کے نام پر غور کرتی رہتی ہوں۔
پاکستان ۔۔۔پاک استھان ۔۔ پاک لوگوں کی سر زمین۔۔ لینڈ آف پیور ۔۔۔۔جی جی ۔۔ ۔۔میں نے بھی اپنے پرائمری اور ہائی سکول میں وہی نظریہ پاکستان پڑھا تھاجو آپ نے پڑھا۔۔ اپنے آباء اور مشاہیر کی وہی تاریخ جو آپ نے پڑھی ہے۔۔ جس میں پاکستان کا نام چوہدری رحمت علی نے تجویز کیا تھا اور جس میں پچھلے کئی سالوں سے ایک عجیب کنفیوژن پھیلی ہوئی ہے۔
لوگوں کا لوگوں سے مل جل کر رہنا۔۔ لڑنا جھگڑنا۔۔۔ ہاتھ ملانا۔۔ مسکرانا۔۔ باتیں بنانا۔۔ دشمن ہو جانا ۔۔دنیا ہزاروں سالوں سے ایسے ہی، بن بن کر، بگڑ رہی ہے ۔۔ ایسی ہی کسی ارتقائی منزل سے گزر کر ہماری کرہ ارض بر اعظموں، خطوں اور ملکوں میں تقسیم ہوئی ہوگی۔۔ ہزاروں سالوں سے انسان نسل در نسل اسی زمین پر اپنی ترقی اور زوال کی داستانیں لکھ لکھ کر مٹا رہا ہے۔
پھر بھی مجھے ایسا لگتا ہے جیسے اس تقسیم کی شکل کبھی بھی ایسی نہیں تھی، جیسی پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں سامنے آئی ہے۔
انسانوں نے زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھنے کے لئے کئی راستوں، کئی عقائد، کئی پیغمبروں اور کئی مکاتب فکرکی پیروی کی ۔ اور ان پر کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ عمل بھی ہوتا رہا۔ لیکن، کچھ اندازہ تو ہوگا ناں آپ کو کہ ہزاروں سال پرانی اس زمین پر آج تک کتنے مذاہب، کتنے نظریات اور کتنے نظام وجود میں آئے؟ کتنے مٹ گئے؟ کتنے باقی ہیں؟ کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں؟ کتنی مرگئیں؟ اور کتنی اہل علاقہ اور حکومتوں کے سوتیلے رویوں میں دب کر آج تک اپنے وجود کی باقیات سمیٹ رہی ہیں؟
آپ ٹھیک پہنچے۔۔۔میں مذہب، زبان، رنگ، نسل اور معاشی طبقوں کے نام پر پھیلائی جانے والی اس کالی سیاہ اور بھیانک نفرت کی وجہ تلاش کرنے کی تمہید باندھنے کے لئے ایک ناقص کوشش کرنے والی ہوں، جس نے میری اور آپ کی دنیا کو جلتی ہوئی آگ کا گولہ بنا دیا ہے۔ میں نہیں جانتی، میں اس کوشش میں کامیاب ہوسکوں گی۔ لیکن، پھر بھی میں ایسا کرنا چاہتی ہوں۔
میں ٹھیک سے نہیں جانتی کہ انسان نے اپنے آپ کو دوسرے انسانوں سے بلند، خالص اور پاک سمجھنا کب شروع کیا ہوگا۔۔
مگر، اتنا اندازہ لگانا تو شائد زیادہ مشکل نہیں کہ اس کا نتیجہ ایک انسان کے دوسرے کو اپنے سے کم تر سمجھنے کی صورت میں نکلا۔ گویا اس نے طے کرلیا کہ یا تو ساری دنیا اس کی برتری مانے گی۔ اس کے طریقے سے سانس لے گی۔۔ اس کے طریقے کو درست سمجھے گی۔۔ یا پھرختم ہوجائے گی۔ جل کر راکھ ہوجائے گی۔
تحقیق کےجو ذرائع میرے کمپیوٹر پر دستیاب ہیں ان میں کئی ایسی ویب سائٹس ہیں جن کے مستند ہونے اور پھیلائے جانے و الے سچ کی تصدیق شائد مجھے واشنگٹن کی لائبریری آف کانگریس سے بھی دستیاب نہ ہو سکے۔
لیکن میرے فیس بک کے ’پسند‘ کئے ہوئے صفحات میں سے چند ایک پر پاکستان کی لوح محفوظ پر درج کچھ ایسے واقعات کا ذکر جاری ہے۔ جو اگر سچ ہیں تو آج میری اور آپ کی دنیا کے لئے لاہور کی جوزف کالونی کے ڈیپ فریز، واشنگ مشینوٕ ں اور پنجروں میں جل جانے والے طوطوں کا مذہب سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہے ۔
آپ بتایئے، کیا آپ بھی ایسا ہی نہیں سوچ رہے؟
پاکستان کا ہر سوچنے سمجھنے والا شخص ناراض ہے۔۔ غصے میں ہے۔ پاؤں پٹخ رہا ہے۔۔ اور چونکہ اس کا زور کسی ’ناصحیح ‘ کو صحیح کرنے پر نہیں چل رہا۔۔ اپنے فیس بک کا سٹیٹس اپ ڈیٹ کرکے ہی دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی نبض پاکستان کی طرح چل رہی ہے۔۔۔تیز تیز۔۔۔ اور تیز ۔۔ڈوب ڈوب کر ابھرتی۔۔۔ابھر ابھر کر ڈوبتی۔
ابھی ابھی میں نے دیکھا، پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی خاتون سماجی کارکن کا جنازہ پڑھانے کے لئے کتنے بہت سے لوگ جمع ہوئے۔۔ ان میں سے کس کے ہاتھ پر پروین رحمان کا لہو تلاش کیا جائے گا؟
شائد، پاکستان کی تجارتی شہ رگ کے کچھ پر اسرار ہاتھ اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تھوڑی بہت مدد کر سکیں ۔ جنہیں اپنی کارکردگی حلال کرنے کے لئے فائلوں کا پیٹ تو بھرنا ہی ہے۔۔ مگر، اس کے بعد کیا ہوگا؟۔۔ شائد کچھ نہیں۔
پھر بھی، اگر کسی کو اپنے ملک پاکستان کی تاریخ کے کچھ نامعلوم اور نہ سمجھ میں آنے والے ابواب جاننے میں دلچسپی ہو۔۔ تو اسے امریکی صحافی اسٹیو انسکیپ کی کتاب،
Instant City: Life and Death in Karachi ،ایک بار تو ضرور پڑھنی چاہئے۔
وہی پروین رحمان جنہیں غریبوں کی کچی بستیوں میں رہنے والوں کی بہبود کی بڑی فکر تھی۔ اور جنہیں نامعلوم افراد نے بےحد کامیابی سے ہمیشہ کے لئے خاموش کروا دیا۔
مگر اس کتاب میں پروین رحمان جیسے کچھ اور سرپھروں کا ذکربھی ہے، جو نامعلوم افراد کے نامعلوم مقاصد کے راستے میں کہیں سے خواہ مخواہ ہی آجاتے ہیں۔ ناحق اپنی جان سے جاتے ہیں۔
’انسٹنٹ سٹی: لائف اینڈ ڈیتھ ان کراچی‘ کے ابتدائی صفحات پڑھنے کے دوران میرا پہلا ردعمل یہ تھا کہ کراچی جیسے دیوزاد شہر میں ایسے طاقتور عناصر سے دشمنیاں مول لینا کوئی عقلمندی کی بات ہے ہی نہیں۔۔ کسی بھی عام آدمی کو ،چاہے وہ پروین رحمان ہوں یا کوئی اور۔۔ جس کے پاس دولت اور سیاسی جمع خرچ کا لوٹا ہوا مال غنیمت نہیں ہے، کتنی دیر تک برداشت کیا جائے گا؟ میں ابھی اس باکمال کتاب کو صفحہ نمبر 100 سے آگے نہیں پڑھ سکی۔۔۔لیکن میرا خدشہ سچ ثابت ہوگیا ہے۔
پاکستان میں اور کتنی پروین رحمان ہوں گی۔۔بظاہر کمزورنظر آنےوالی عورتیں، جن کے عزائم نے غنڈوں اور رسہ گیروں کی دم پر پاؤں رکھا ہوگا ۔ میں نہیں جانتی۔۔ لیکن اتنا سمجھتی ہوں کہ آخر پاکستان انہیں کب تک برداشت کرے گا ؟
2013ء کے پاکستان کی ٹائم لائن پر کوئٹہ دھماکے، عباس ٹاؤن، جوزف کالونی اور پروین رحمان کے خون کے چھینٹے دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ ملک کی کامیاب عوامی جمہوریت ایک بار پھر نئی انتخابی آزمائش سے گزرنے والی ہے۔۔ اور پاکستان کا عام آدمی نامعلوم افراد کی نامعلوم سمت سے آنے والی گولیوں کے سامنے سینہ سپر سموسے تل رہا ہے، سبزی بیچ رہا ہے، تنور پر روٹیاں لگا رہا ہے، بے روزگاری کے جن سے خوفزدہ دن سے رات کرنے میں مصروف ہے۔۔ پیٹ بھر کھانے، رات گزارنے لائق بجلی، کھانا پکانے لائق ایندھن ،بچوں کی کتابوں، کاپیوں، بستوں کی فکر کر رہا ہے۔
والے نئےسورج کے ساتھ، کسی نامعلوم امید کا سرا پکڑ کر، اپنا رستہ ڈھونڈنے، اپنے بچوں کا رزق تلاش کرنے گھر سے نکلتا ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ شام ڈھلنے پر ہونےو الی واپسی اپنے پیروں پر ہوگی یا کسی امدادی ادارے کی ایمبولنس پر؟
شائد آپ سوچ رہے ہیں کہ میں بھی واشنگٹن کے میز کرسی والے دفتر میں بیٹھ کر مذموم عزائم والے امریکی میڈیا کے اسی پراپیگنڈے کا پرچار کرنے والی ہوں، جسے پاکستان میں آج تک کبھی کوئی روشن پہلو دکھائی نہیں دیا۔۔ شائد آپ ٹھیک سوچ رہے ہوں۔
لیکن، میں ان دنوں ایک عجیب الجھن میں گرفتار ہوں ۔ صبح شام ہر وقت مجھے ایک ہی کام ہے۔ میں چوبیسوں گھنٹے پاکستان کے نام پر غور کرتی رہتی ہوں۔
پاکستان ۔۔۔پاک استھان ۔۔ پاک لوگوں کی سر زمین۔۔ لینڈ آف پیور ۔۔۔۔جی جی ۔۔ ۔۔میں نے بھی اپنے پرائمری اور ہائی سکول میں وہی نظریہ پاکستان پڑھا تھاجو آپ نے پڑھا۔۔ اپنے آباء اور مشاہیر کی وہی تاریخ جو آپ نے پڑھی ہے۔۔ جس میں پاکستان کا نام چوہدری رحمت علی نے تجویز کیا تھا اور جس میں پچھلے کئی سالوں سے ایک عجیب کنفیوژن پھیلی ہوئی ہے۔
پھر بھی مجھے ایسا لگتا ہے جیسے اس تقسیم کی شکل کبھی بھی ایسی نہیں تھی، جیسی پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں سامنے آئی ہے۔
انسانوں نے زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھنے کے لئے کئی راستوں، کئی عقائد، کئی پیغمبروں اور کئی مکاتب فکرکی پیروی کی ۔ اور ان پر کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ عمل بھی ہوتا رہا۔ لیکن، کچھ اندازہ تو ہوگا ناں آپ کو کہ ہزاروں سال پرانی اس زمین پر آج تک کتنے مذاہب، کتنے نظریات اور کتنے نظام وجود میں آئے؟ کتنے مٹ گئے؟ کتنے باقی ہیں؟ کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں؟ کتنی مرگئیں؟ اور کتنی اہل علاقہ اور حکومتوں کے سوتیلے رویوں میں دب کر آج تک اپنے وجود کی باقیات سمیٹ رہی ہیں؟
میں ٹھیک سے نہیں جانتی کہ انسان نے اپنے آپ کو دوسرے انسانوں سے بلند، خالص اور پاک سمجھنا کب شروع کیا ہوگا۔۔
مگر، اتنا اندازہ لگانا تو شائد زیادہ مشکل نہیں کہ اس کا نتیجہ ایک انسان کے دوسرے کو اپنے سے کم تر سمجھنے کی صورت میں نکلا۔ گویا اس نے طے کرلیا کہ یا تو ساری دنیا اس کی برتری مانے گی۔ اس کے طریقے سے سانس لے گی۔۔ اس کے طریقے کو درست سمجھے گی۔۔ یا پھرختم ہوجائے گی۔ جل کر راکھ ہوجائے گی۔
لیکن میرے فیس بک کے ’پسند‘ کئے ہوئے صفحات میں سے چند ایک پر پاکستان کی لوح محفوظ پر درج کچھ ایسے واقعات کا ذکر جاری ہے۔ جو اگر سچ ہیں تو آج میری اور آپ کی دنیا کے لئے لاہور کی جوزف کالونی کے ڈیپ فریز، واشنگ مشینوٕ ں اور پنجروں میں جل جانے والے طوطوں کا مذہب سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہے ۔
آپ بتایئے، کیا آپ بھی ایسا ہی نہیں سوچ رہے؟