صحت عامہ کے ماہرین بار بار عوام کو خبردار کر رہے ہیں کہ کرونا وائرس کی نہ ویکسین دستیاب ہے اور نہ کوئی علاج۔ نہ ہی کوئی شے کھانے یا پینے سے خاص طور پر اس وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے۔
لیکن، دنیا بھر میں افواہوں کی وجہ سے کچھ لوگ الٹی سیدھی چیزیں کھا پی رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہزاروں لوگوں نے مضر اشیا سے صحت بگاڑ لی ہے اور سیکڑوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
تازہ خبر ایران سے آئی ہے جہاں وزارت صحت نے بتایا ہے کہ 20 فروری سے 7 اپریل کے دوران ملک بھر میں 728 افراد زہریلی شراب پینے سے ہلاک ہوگئے۔ وزارت کے ایک مشیر نے اے پی کو بتایا کہ 525 افراد اسپتالوں میں اور باقی گھروں پر دم توڑ گئے۔
ایران مشرق وسطیٰ میں کرونا وائرس کے بدترین متاثر ملکوں میں سے ایک ہے جہاں 91 ہزار مریضوں کی تصدیق ہوچکی ہے، جن میں سے 5800 ہلاک ہوگئے ہیں۔
اس خوف کی فضا میں یہ افواہ پھیل گئی کہ الکوحل پینے سے کرونا وائرس کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ملک میں زہریلی شراب کے کیسز میں 10 گنا اضافہ ہوگیا۔ ایرانی وزارت صحت کے مطابق دو ماہ سے کم عرصے میں پانچ ہزار افراد زہریلی شراب پی کر بیمار ہوئے۔ ان میں کم از کم 90 اندھے ہوگئے۔
عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ کسی بھی قسم کی شراب پینے سے کرونا وائرس کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور شراب پینے والا شخص اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
ایران واحد ملک نہیں جہاں افواہوں یا گمان کی بنیاد پر غلط علاج تجویز کیا گیا۔ چند دن پہلے امریکہ کے صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں نیوز بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ جب جراثیم کش کیمکلز استعمال کیے جاتے ہیں تو وہ ماحول کو صاف کر دیتے ہیں۔ سائنس دانوں کو اس بارے میں تحقیق کرنی چاہیے کہ انسانی جسم سے کرونا وائرس کی صفائی کے لیے جراثیم کش چیزیں استعمال کی جاسکتی ہیں۔
اس کے بعد ڈاکٹروں کے علاوہ جراثیم کش مصنوعات بنانے والوں کو بھی بیانات جاری کرنا پڑے کہ وہ ہرگز جراثیم کش کیمیکلز نہ پئیں کیونکہ اس سے ان کی جان جا سکتی ہے۔
اس سے پہلے صدر ٹرمپ ایک سے زیادہ نیوز بریفنگز میں کہہ چکے تھے کہ ملیریا کی دوا کلوروکوئن سے کرونا وائرس کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ بھارت نے اس دوا کی برآمد پر پابندی لگائی تو صدر ٹرمپ نے دھمکی آمیز بیان دیا اور بھارت کو اس کی کھیپ امریکہ بھیجنا پڑی۔
بعد میں ماہرین صحت نے بتایا کہ اس دوا سے کرونا وائرس کا علاج نہیں کیا جاسکتا بلکہ جن مریضوں کو یہ دوا دی گئی ان میں اموات میں اضافہ ہوگیا۔
فروری میں فیس بک پر یہ افواہ پھیل گئی تھی کہ ادرک کو ابال کر خالی پیٹ استعمال کرنے سے کرونا وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔ ایک پوسٹ دسیوں ہزار بار شئیر کی گئی کہ اگر آپ کو کرونا وائرس ہوجائے تو چوبیس گھنٹے تک کچھ نہ کھائیں۔ پھر ادرک کو ابال کر تین دن اسے پیتے رہیں تو شفا مل جاتی ہے۔
اس کے بعد کئی ملکوں میں، خاص طور پر بلغاریہ اور تیونس میں ادرک کی فروخت میں اضافہ ہوگیا۔ ڈاکٹروں نے اس کی سختی سے تردید کی اور عالمی ادارہ صحت نے بھی بیان جاری کیا کہ ادرک، لہسن یا لیموں استعمال کرنے سے کرونا وائرس کا مریض صحت یاب نہیں ہوتا۔
ادھر افغانستان میں افواہ پھیل گئی کہ دو پیالی کالی چائے پینے سے کرونا وائرس سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ ایک صحافی ذکریا نوری نے بتایا کہ انھیں گاؤں سے ایک رشتے دار کا فون آیا جس نے بتایا کہ اس بارے میں مسجد سے اعلان کیا جا رہا ہے۔ جہاں جہاں یہ افواہ پھیلی، وہاں چائے کی فروخت میں اضافہ ہوگیا۔