کہتے ہیں کہ شاعر اردگرد کے ماحول سے بہت اثر لیتا ہے لیکن آتش نے لکھنؤ کے آزاد اور رنگین ماحول میں پرورش پانے کے باوجود اپنی شاعری کوان تمام مروجہ علامات سے دور رکھا جو اس وقت دبستان لکھنؤ کا خاصا تھیں۔
ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں کہ لکھنؤ کے انحطاط پذیر معاشرے نے ان کے وقت تک گدلے پانی ایسی صورت اختیار کر لی تھی ،لیکن آتش اس میں کنول کی طرح عفت جذبات کی علامت بن جاتے ہیں۔۔۔۔لکھنؤ میں آتش کا کلام کسی لکھنوی بانکے کا نہیں دلی والے کا معلوم ہوتا ہے۔
دلی اور لکھنؤ کے اتصال سے ایک نیا رنگ و آہنگ پیدا کرنے والے اس شاعر کی برسی کے موقع پر یہ خصوصی رپورٹ پیش ہے۔