سید علی گیلانی: بے لچک مؤقف رکھنے والے کشمیری لیڈر
سید گیلانی کو بھارت کے زیرِانتظام کشمیر میں اسلام پسند اور ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی حلقے کا ترجمان اور قائد سمجھا جاتا تھا۔
سید گیلانی نے سخت گیر سیاسی نظریات کی وجہ سے زندگی کا ایک بڑا حصہ جیل میں ہی گزارا۔
سید گیلانی نے 1950 میں کشمیریوں کی تحریکِ مزاحمت میں عملی طور پر حصہ لے کر سیاست کا باضابطہ آغاز کیا تھا۔
سید علی گیلانی برصغیر کے مشہور عالمِ دین اور جماعتِ اسلامی کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی کو اپنا استاد مانتے تھے۔ وہ خود جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کے ایک رکن بنے اور بہت جلد اس کے چوٹی کے لیڈروں میں شمار ہونے لگے۔
سید گیلانی استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد 'حریت کانفرنس' کے چیئرمین بھی رہے۔
وہ بھارت کے زیرِ انتطام کشمیر میں ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرنے والے سب سے نمایاں کشمیری لیڈر تھے۔
سید علی گیلانی کا موقف تھا کہ مسئلہ کشمیر کو اس کے عوام کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق اور اس کے تاریخی پس منظر میں اقوامِ متحدہ کی متعلقہ قراردادوں پر عمل درآمد کے ذریعے حل ہونا چاہیے۔
سید علی گیلانی تین مرتبہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔
سن 2003 میں اُس وقت کے پاکستان کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے کشمیری قیادت کو مبینہ طور پر بھارت کے ساتھ مذاکرات کا گرین سگنل دیا تو سید گیلانی نے اس کی بھر پور اور برملا طور پر مخالفت کی تھی۔
سید علی گیلانی نے 2003 میں جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کرکے 'تحریکِ حریت جموں و کشمیر' کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی تھی۔
سید علی شاہ گیلانی نے 29 جون 2020 کو غیر متوقع طور پر کُل جماعتی حریت کانفرنس کے اُس دھڑے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تھا جس کی وہ قیادت کر رہے تھے۔
حریت کانفرنس استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد ہے جو مارچ 1993 میں قائم کیا گیا تھا لیکن دس سال بعد بعض امور پر اختلافات کی بنا پر یہ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا۔
کشمیر کے مسئلے پر سخت گیر مؤقف کے حامل اتحاد کے دھڑے کی قیادت سید گیلانی نے سنبھالی جب کہ اعتدال پسند جماعتیں سرکردہ لیڈر میر واعظ عمر فاروق کی سربراہی میں جمع ہوئیں۔
سید گیلانی نے حریت کانفرنس (گیلانی) سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ وہ اتحاد کی موجودہ حالت کے پیش نظر اسے خیر باد کہنا مناسب سمجھتے ہیں۔
سید علی گیلانی کے صاحبزادے نسیم گیلانی اپنے والد کا پاسپورٹ میڈیا کو دکھا رہے ہیں۔
حکومتِ پاکستان نے سید علی گیلانی کو 2020 میں پاکستان کے سویلین ایوارڈ ' نشانِ پاکستان' سے نوازا تھا جس پر بھارت نے شدید نکتہ چینی کی تھی۔