عمران خان نے انتخابات کے بعد ایک اتحادی حکومت بنائی اور 18 اگست 2018 کو وزارتِ عظمی کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اقتدار سنبھالے کے بعد انہوں نے 100 دن کے اندر پاکستان کے نظامِ حکومت، کرپشن کے خاتمے، روز گار کی فراہمی سمیت کئی اہم شعبوں میں اصلاحات کا پروگرام پیش کیا تھا۔
اپنی وزارتِ عظمی کے آغاز ہی میں عمران خان کے لیے ملک کے معاشی مسائل سب سے بڑا چیلنج ثابت ہوئے۔ عمران خان کی حکومت کی معاشی پالیسیوں میں یکسوئی نہ ہونے کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ عمران خان نے دو سال کے عرصے میں چار وزرائے خزانہ تبدیل کیے۔
عمران خان نے حکومت میں آنے کے بعد 50 لاکھ گھروں کی تعمیر اور ایک کروڑ ملازمتوں کی فراہمی کے وعدے بھی کیے تھے۔ ابتدا میں وزیرِ اعظم نے گھریلو سطح پر مرغ بانی اور مویشی پالنے جیسے پرگرام بھی متعارف کرائے۔ بعد ازاں کامیاب نوجوان پروگرام اور نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم جیسے منصبوے بھی متعارف کرائے گئے۔
عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد پہلے خطاب ہی سے ملک میں کرپشن کے خاتمے اور لوٹی گئی دولت واپس لانے کے بڑے وعدے کیے۔ ان کے ناقدین کے مطابق وہ اپنے یہ وعدے پورے کرنے میں تو کامیاب نہیں ہو سکے البتہ اپوزیشن کی جانب سے ان پر احتساب اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کرنے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے۔
عمران خان کو اپنے دورِ حکومت میں کرونا وبا کے عالمی بحران کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران انہوں نے ملکی معیشت کی بحالی کے لیے تعمیراتی شعبے کے لیے خصوصی پیکج اور ٹیکس ایمنسٹی جیسے اقدامات بھی کیے۔ وبا پر قابو پانے کے لیے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم کیا۔ کرونا وبا کی روک تھام کے لیے عالمی سطح پر ان کے اقدامات کو سراہا گیا۔
عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور میں سول اور ملٹری تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ ابتدا میں ان حکومت اور عسکری قیادت نے ایک صفحے پر ہونے کا تاثر عام کیا۔ 2019 میں وزیرِ اعظم نے آرمی چیف جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی اور بعد ازاں سپریم کورٹ کی ہدایت پر توسیع کے لیے قانون سازی بھی کرائی۔
گزشتہ برس نومبر میں فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کی مدتِ ملازمت پوری ہونے کے بعد نئے سربراہ لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم کی تعیناتی کے نوٹیفکیشن پر ہونے والی تاخیر کو وہ پہلا موقع قرار دیا جاتا ہے جس کے بعد عمران خان اور عسکری قیادت کے ’ایک پیج‘ پر ہونے کا تاثر تبدیل ہونا شروع ہوا۔
عمران خان کی خارجہ پالیسی میں اسلاموفوبیا، فلسطین اور کشمیر کے مسائل مرکزی نکات رہے اور ان موضوعات پر بین الاقوامی فورمز سے ان کی تقاریر کو ان کے حامیوں کی پذیرائی بھی ملی۔
خارجہ محاذ پر 2019 میں امریکہ کے دورے اور صدر ٹرمپ سے ملاقات کو عمران خان نے اپنی بڑی کامیابی قرار دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں عمران خان کے ناقدین ان کا موازنہ صدر ٹرمپ سے کرتے تھے۔ امریکہ میں صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں حکومتوں میں تعلقات سرد مہری کا شکار رہے اور عمران خان نے کئی مواقع پر صدر بائیڈن کی جانب سے فون پر رابطہ نہ کرنے کا بھی تذکرہ کیا۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں چین کو حاصل مرکزی حیثیت عمران خان کے دور میں بھی برقرار رہی۔ انہوں نے چین کے کئی اہم دورے کیے اور رواں برس ہونے والے بیجنگ اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں بھی شریک ہوئے۔ البتہ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر کام سست روی کا شکار ہوا۔
فروری 2019 میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں شدید کشیدگی پیدا ہوئی۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے پلوامہ علاقے میں ایک دہشت گردی کے واقعے کے بعد بھارت نے پاکستان پر اس میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرکے فضائی حدود میں کارروائی کی کوشش کی۔ اس کارروائی میں بھارت کے لڑاکا طیارے کا پائلٹ ابھی نندن ورتمان پاکستان میں گرفتار ہوا۔ عمران خان نے اس پائلٹ کو رہا کردیا جسے دونوں ممالک کی درمیان کشیدگی کم کرنے کے اقدام کے طور پر دیکھا گیا۔ لیکن اسی سال بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات پھر کشیدہ ہوگئے۔ اس کے بعد سے عمران خان نے بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کو عالمی فورمز پر شدید تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ البتہ اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں انہوں نے بھارت کی آزاد خارجہ پالیسی کی تعریف بھی کی۔
رواں برس فروری میں عمران خان جب روس کے دورے پر پہنچے تو اسی شب روسی افواج نے یوکرین میں جنگ کا آغاز کر دیا۔ اس وجہ سے ان کے اس آخری غیر ملکی دورے کو دنیا بھر میں توجہ حاصل ہوئی۔ جب کہ پاکستان میں اسے خارجہ پالیسی کی اہم تبدیلی کے طور پر دیکھا گیا۔ بعد ازاں عمران خان نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ دورہٴ روس اور یوکرین پر حملے سے متعلق مؤقف کی وجہ سے ملک میں سیاسی تبدیلی کے لیے مبینہ غیر ملکی مداخلت ہوئی۔
عمران خان کے دورِ حکومت میں پاکستان کے اندر سیاسی کشمکش عروج پر رہی۔ ستمبر 2020 میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اتحاد بنایا جس کے بعد سے حکومت کے خلاف احتجاجی سلسلہ شروع ہوگیا جو مختلف وقفوں سے جاری رہا۔ رواں برس پی ڈی ایم اور حزبِ اختلاف کی ایک اور بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے مل کر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی۔ عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں جمع ہونے کے بعد تحریک انصاف کے کئی ارکان اور اتحادی جماعتیں بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئیں۔ ایک ہنگامہ خیز اجلاس کے بعد حزبِ اختلاف تحریکِ عدم اعتماد منظور کرانے میں کامیاب ہوئی۔