عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ کرونا وائرس کے خاتمے کے بعد بھی مریضوں میں اس کی علامات کے اثرات عالمی صحت پر ہوں گے اور اس کی وجہ وبا کی شدت ہے۔
ڈبلیو ایچ او اس بارے میں تحقیق کر رہا ہے کہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے کے چھ ماہ بعد بھی لوگ کیوں کر مختلف تکالیف کا شکار رہتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کی ہیلتھ کیئر ریڈی نیس کی ٹیم ڈائریکٹر جینیٹ ڈیاز کا کہنا ہے کہ کووڈ نائنٹین کے بعد کی علامات کے ساتھ کچھ لوگ جنہیں لانگ کووڈ کے نام سے بھی شناخت کیا جاتا ہے، کام پر واپس جانے کے قابل نہیں ہوئے۔ ایسے مریضوں میں معذوری کی علامات اُن کی مکمل بحالیٔ صحت کے عمل کو طویل بنا رہی ہیں۔
جینیٹ ڈیاز کہتی ہیں کرونا کے بعد مریضوں میں جو علامات عام ہیں، ان میں تھکاوٹ، سر درد اور حواسِ خمسہ کا مکمل فعال نہ ہونا شامل ہیں۔
SEE ALSO: کرونا ویکسین کا ری ایکشن : الرجی کے مریضوں کو ویکسین سے احتیاط کی ہدایتدیگر علامات میں لمبے سانس میں دقت، کھانسی، ذہنی صحت اور اعصابی شکایات بھی شامل ہیں۔
ڈیاز کہتی ہیں کہ یہ واضح نہیں ہے کہ کون سے مریض طویل کووڈ کے خطرے سے دو چار ہیں اور محققین کو نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے تاہم وہ سارس کووڈ ٹو وائرس سے پھیلنے والی اس بیماری سے متعلق بہت سے سوالات کے جواب تلاش کر رہے ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت عالمی سطح پر مربوط تحقیق اور مریضوں سے متعلق زیادہ سے زیادہ کلینیکل ڈیٹا کے حصول پر زور دے رہا ہے جس سے بیماری کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات اکٹھی کی جا سکیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈبلیو ایچ او کے بقول کلینیکل ڈیٹا کی روشنی میں وبا کی پیچیدگیوں کے شکار افراد کو بہتر علاج فراہم کرنے اور اس وبا کی صورتِ حال کو بہتر طور پر سمجھنا ممکن ہو گا۔
جینیٹ ڈیاز کے بقول، "ہمھیں بلاشبہ تشویش ہے کہ بہت سے لوگ سارس کووڈ۔2 وائرس کا شکار ہوئے ہیں۔ ہمہیں نہیں معلوم کہ یہ بیماری کس قدر عام ہے یا غیر عام ہے۔ لیکن وبا کی وسعت کے اعتبار سے جو نمبر ہمارے سامنے ہیں، وہ صحت کے نظام پر اثرات چھوڑیں گے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ سارس کووڈ ٹو کے انفیکش سے بچاؤ ضروری ہے اور اس ضمن میں عوام کی صحت کے لیے اقدامات میں اس وقت پہلی ضروری چیز جسمانی طور پر فاصلہ برقرار رکھنا، ماسک پہننا اور ہاتھ دھونا شامل ہیں۔