پروفیسر احتشا م حسین کی یاد میں

پروفیسر احتشام حسین

پروفیسر احتشام حسین اردو تنقید کی عبقری شخصیت ہیں اور اردو ادب میں ناقد کی حیثیت سے ان کا مقام محفوظ ہے ۔ لیکن وہ ایک ہشت پہل شخصیت تھے ۔

انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا تھا ۔ دس بارہ سال کی عمر میں ہی انہوں نے شاعری شروع کر دی تھی ۔ اس کے علاوہ انہوں نے افسانے اور ڈرامے بھی لکھے ۔ یورپ اور امریکہ کا ان کا سفر نامہ ‘ ساحل اور سمندر’ بہت ہی شہرت رکھتا ہے ۔

لیکن احتشام حسین شاعر کی حیثیت سے بھی اپنا ایک مقام رکھتے ہیں ۔ ان کا شعری مجموعہ بھی شائع ہوا تھا جو کافی مقبول ہوا ۔ وہ خود شاعری کے بارے میں کہتے ہیں ‘شاعری کبھی فن بنتی ہے ، کبھی مختصر صنعت گری کی منزل میں رہ جاتی ہے ۔ پہلے انداز کی شاعری شاعر کے واردات قلب و نظر کا نتیجہ ہوتی ہے دوسری محض موزونی طبع کا ۔ ’

ان کی شاعری کے بارے میں پروفیسر سحر انصاری لکھتے ہیں ‘ پروفیسر سید احتشام حسین ایک کھرے انسان تھے ۔ ان کی شخصیت میں ایک نوع کا توازن اور اعتدال تھا وہ وسیع المطالعہ اور کشادہ نظر ادیب و شاعر تھے ۔ جس طرح فیض احمد فیض کو ہر طبقہ خیال نے ان کی اپنی نظریاتی وابستگیوں کے باوجود نہ صرف قبول کیا بلکہ انہیں عزیز رکھا اور ان سے محبت کی اسی طرح احتشام حسین کو بھی اپنی ذاتی اور دانشورانہ خوبیوں کی بناءپر ہمیشہ سراہا گیا اور ان کی شخصیت اور فن کبھی متنازعہ نہیں رہے ۔ مولانا امتیاز عرشی ہوں یا مالک رام ، سجاد ظہیر ہوں یا آل احمد سرور ، احتشام حسین کی شخصیت کے اس سحر کے سبھی قائل ہیں ایسی شخصیت کی تخلیق و تنقید میں کھرا پن ضرور موجود ہوتا ہے اور اس کے ڈھالے ہوئے سکے کھوٹے نہیں ہو تے ۔ ’

احتشام حسین کے بعض اشعار تو چونکانے والے ہیں ۔ انہوں نے جو کچھ کہا ہے دل سے کہا ہے حالانکہ ان کی شعری میراث مختصر ہے جسے ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے جعفر عسکری نے ”روشنی کے دریچے “کے عنوان سے شائع کیا تھا ۔

احتشام حسین کی غزلوں کے کچھ اشعار:


کل تو خیر ان کی یاد آتی تھی
آج کیوں ہے فضا اداس اداس
فطرت نے سونپ دی مجھے دنیائے آرزو
شائستگی غم کا سزا وار دیکھ کر
رگوں کا غم کا لہو بن کے جو مچلتے ہیں
وہ گیت ہیں کہ میری شاعری میں ڈھلتے ہیں
وہ راہ جس پہ کئی بار بچھ چکی لاشیں
اسی پہ روز نئے کارواں نکلتے ہیں
تری نگاہ جگاتی ہے شوق کا جادو
جو اک چراغ بجھا سو چراغ جلتے ہیں
تلاش گل میں نکل آئے گھر سے دیوانے
جھلک کچھ ایسی دکھائی غبار صحرا نے
حصار عہد سے باہر بھی گونج جاتے ہیں
حدود وقت میں لکھے گئے جو افسانے
آسان راہ فکر حریفوں نے ڈھونڈھ لی
میرے جنوں کی منزلیں دشوار دیکھ کر
سورج چرھا تو دھوپ کی لہروں میں غرق ہوں
جی خوش ہوا تھا سائہ دیوار دیکھ کر
روشن نہ سہی صبح وطن اے دل پرشوق
بے رونقی شام غریباں تو نہیں ہے
یوں گزرتا ہے تری یاد کی وادی میں خیال
خار زاروں میں کوئی برہنہ پا ہو جیسے
وقت کے شور میں یوں چیخ رہے ہیں لمحے
بہتے پانی میں کوئی ڈوب رہا ہو جیسے
یا مجھے وہم ہے سنتا نہیں کوئی میری
یا یہ دنیا ہی کوئی کوہ ندا ہو جیسے
نہ جانے ہار ہے یا جیت کیا ہے
غموں پر مسکرانا آگیا ہے
زندگی روز نئی ہوتی ہے دل والوں کی
گرچہ ہر روز وہی لیل و نہار آئے ہیں
چاہتاہوں کہ غم و یاس کی باتیں نہ کروں
آہ اس طرح کروں میں کہ نہ سن پائے کوئی
یوں صنم توڑ دوں ظلمت کے کہ اب حشر تلک
روشنی کےلئے محتاج نہ رہ جائے کوئی

احتشام حسین نے نظمیں بھی کہی ہیں ان کی نظمیں پابند بھی ہیں اور آزاد بھی ۔ لیکن شاعری میں وہ غزلوں کے زیادہ پرستا رہیں :


سبھی حدود زماں و مکاں کے ٹوٹ گئے
تمہارے پاس یہ رکھا امید فردا نے

پروفیسر احتشام حسین کی پیدائش اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے ایک قصبے میں 21 اپریل سنہ 1922 کو ہوئی تھی ۔ وہ لکھنو یونیورسٹی اور الہ آباد یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر رہے ۔ ان کی وابستگی ترقی پسند تحریک سے تھی ۔ اسی لئے ان کی تنقید پر مارکسیت کا لیبل لگا ہوا ہے ۔ ان کی ایک درجن سے زائد تنقیدی کتابیں اردو ادب کا سرمایہ ہیں لیکن شاعری مارکیست سے ماورا ہے ۔ احتشام حسین کا انتقال یکم دسمبر 1972 کو الہ آباد میں ہوا اور وہیں ان کی تدفین ہوئی ۔