صدر ٹرمپ نے جمعے کو وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔
صدر نے ہنگامی حالت میکسیکو کے ساتھ سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے نافذ کی ہے تاکہ انہیں کانگریس کی منظوری کے بغیر دیوار کے لیے درکار فنڈز مل سکیں۔ لیکن ان کے اس اقدام پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔
امریکہ کی 16 ریاستوں نے متفقہ طور پر ایمرجنسی کے نفاذ کے حکم نامے کو عدالت میں چیلنج کردیا ہے جب کہ اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاج بھی ہو رہا ہے۔
ہنگامی حالت کے نفاذ سے صدر کو کانگریس کی منظوری کے بغیر بجٹ میں مختلف مدات میں رکھے گئے فنڈز کو دیوار کی تعمیر کے لیے استعمال کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ یہ اقدام امریکہ کی جنوبی سرحد پر موجود خطرات اور مشکل صورتِ حال کے پیشِ نظر اٹھا رہے ہیں جن سے نبٹنے کے لیے ان کے بقول سرحد پر دیوار کی تعمیر ضروری ہے۔
لیکن ڈیموکریٹس ان کا یہ موقف مسترد کرتے ہوئے سرحدی دیوار کو غیر ضروری اور ٹیکس دہندگان کے پیسے کا ضیاع قرار دیتے ہیں۔
امریکی آئین نے صدر کو غیر معمولی صورتِ حال میں ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اختیار دیا ہے جس کے تحت وہ کئی معاملات میں کانگریس کو بائی پاس کرسکتا ہے۔
ماضی میں امریکی صدور نے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے اختیار کا استعمال زیادہ تر حالتِ جنگ میں ہی کیا ہے۔
صدر ٹرمپ کانگریس سے دیوار کی تعمیر کے لیے بجٹ میں 7ء5 ارب ڈالر کی رقم کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن ڈیموکریٹس نے یہ مطالبہ ماننے سے صاف انکار کردیا تھا۔
ری پبلکن اور ڈیموکریٹ رہنماؤں نے طویل مذاکرات کے بعد حکومت کو سرحد پر باڑ لگانے اور دیگر اقدامات کے لیے 3ء1 ارب ڈالر کی رقم دی ہے جس پر صدر ٹرمپ ناراض ہیں۔
ڈیموکریٹس کا مؤقف ہے کہ سرحد پر دیوار کی تعمیر غیر ضروری اور امریکی ٹیکس دہندگان پر بوجھ ہے۔
جمعے کو صدر کے خطاب کے فوری بعد ریاست نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹی ٹیا جیمز نے ریاستی حکومت کی طرف سے ایمرجنسی کے حکم نامے کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا۔
دیوار کی تعمیر کے لیے رقم مختص نہ کرنے پر پیدا ہونے والے تنازع کے باعث امریکی حکومت کے ایک چوتھائی محکمے گزشتہ سال 22 دسمبر کو شٹ ڈاؤن ہوگئے تھے۔