راحت فتح علی خان کو آپ سنگر کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ قوالی ان کی پہچان ہے اور بالی ووڈ کے بہت سے میگا ہٹ گانے ان کی آواز کے ہنر کا جادو۔۔ مگر ایک حوالہ ایسا بھی ہے جو انہیں تاریخ میں دیر تک امر رکھے گا۔
یہ وہ حوالہ ہے جو انہیں بھارت کے نامور قلم کار گلزار کے ہم پلہ نہیں تو کم از کم ان سے سرتال کے گہرے رشتوں میں باندھتا نظر آتا ہے ۔ اگر گلزار نے لکھا ہے کہ "نظر میں رہتے ہو، جب تم نظر نہیں آتے۔۔" تو اسے آواز راحت فتح نے بخشی ہے۔
گلزار کا کلام ہے "آنکھو ں کو ویزا نہیں لگتا، سپنوں کی سرحد ہوتی نہیں۔۔۔" تو راحت بھی اب ’بلبلِ ہند‘ لتا منگیشکر کے ایک گانے سے وہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو گلزار اب تک کرتے رہے ہیں۔
’اللہ تیرو نام، ایشور تیرو نام۔۔‘ یہ گانا اب تک آپ نے بھارت کی لیونگ لیجنڈ لتا منگیشکر کی آواز میں ہی سنا ہوگا۔ لیکن اب اسی سدا بہار گیت کو آپ پاکستانی سنگر اور قوال راحت فتح علی خان کی آواز میں سن سکیں گے۔
یہ گانا دیو آنند کی فلم ’ہم دونوں‘ کا ہے جو سن 1961ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ کمال یہ ہے کہ اس گانے کی شہرت اتنے سال گزر جانے کے باوجود کم نہیں ہوئی۔ اسی شہرت کے سبب اسے دوبارہ راحت فتح علی خان کی آواز میں ریکارڈ کیا جارہا ہے۔
راحت فتح علی خان بالی ووڈ کو کئی میگا ہٹ گانے دے چکے ہیں اور دنیا بھر میں ان کے بے شمار پرستار ہیں جب کہ سروں کی ملکہ لتا منگیشکر تو پاکستان کی کئی نسلوں کی پسندیدہ آواز ہیں۔ شاید اسی لیے دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے اور ’امن کا پیغام‘ عام کرنے کے لیے اس گانے کا انتخاب کیا گیا ہے۔
’امن کا پیغام‘ عام کرنے کی اس کوشش میں راحت فتح علی خان کا ساتھ دیا ہے آکسفورڈ کے مشرقی و بھارتی کلاسیکل موسیقاروں کے بینڈ ’دی فیوژن پروجیکٹ‘ نے۔
پیغامِ امن کو عام کرنے کے لیے یہی گانا کیوں چنا گیا؟ اس سوال پر راحت فتح خان کہتے ہیں، "میرے خیال میں ہمارا پیغام اس سے بہتر اور مؤثر انداز میں عام ہو سکے گا۔"
دونوں ممالک کے تعلقات پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے راحت کا کہنا تھا: "دونوں ممالک میں امن صرف میری ہی نہیں اور بھی ان گنت لوگوں کی خواہش ہے۔ دونوں ممالک کی ثقافت تقریباً ایک جیسی ہے۔ شکل و صورت، اقدار، محبت اور گرم جوشی بھی سرحد کے دونوں جانب ایک ہی جیسی ہیں۔ مجھے بھارت میں جو پیار ملا وہ الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ دیکھ کردکھ ہوتا ہے کہ دونوں قوموں کے تعلقات کو ہر شعبے میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ چاہے وہ آرٹ کا شعبہ ہو، میوزک کا شعبہ ہو یا پھر کھیل کا میدان۔ ایسے میں صرف میوزک ہی ہے جو دونوں طرف کے عوام کو قریب لاتا ہے۔"
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب آپ ’دی فیوژن پروجیکٹ‘ اور ہمارے پروڈیوسر سلمان احمد کا کام دیکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اگر ہم مل کرکام کریں تو وہ کام کتنا اچھا ہوگا۔