بارش سے بچنے کے لیے آزادی مارچ کے کچھ شرکا نے اس کنٹینر کے نیچے عارضی قیام کیا جس پر مارچ کے رہنما شرکا سے خطاب کرتے ہیں۔ کنٹینر کا اوپری حصہ ترپال سے ڈھکا ہوا ہے جب کہ لاؤڈ اسپیکر اب بھی نمایاں ہیں۔
بارش کے باعث کھانے پینے کی اشیا کے عارضی اسٹالز بھی ویران ہو گئے۔ ایسے ہی ایک چائے کے عارضی اسٹال کے قریب کھڑا شخص حالات کا جائزہ لے رہا ہے۔
شرکا کی اکثریت نے خود کو بارش سے بچانے کے لیے پلاسٹک کی شیٹیں استعمال کیں۔ دھرنے میں شامل ایک بزرگ اور ان کا ایک ساتھی پلاسٹک کے سائبان تلے بیٹھے ہیں۔
کچھ شرکا نے سوزوکی اور دیگر مسافر گاڑیوں پر قناتیں اور پرانے شامیانے یا پلاسٹک وغیرہ ڈال کر اس میں رات بسر کی اور خود کو بارش کے پانی سے بچائے رکھا۔
کچھ شرکا نے اپنا سامان بارش سے محفوظ رکھنے کے لیے اس پر پلاسٹک ڈالی ہوئی ہے۔
بارش سے بچنے کے لیے کچھ شرکا نے کنٹینر کے اندر بھی قیام کیا۔ ٹھنڈ سے بچنے کے لیے کچھ شرکا اپنے ساتھ کمبل بھی لائے تھے۔
کنٹینر کے اندر قیام کرنے والے کچھ افراد نے موسم کی سختی سے بچنے کے لیے مختلف گرم کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔
جو شرکا کسی کنٹینر یا سائبان میں جگہ نہ پاسکے انہوں نے سڑک کنارے رہ کر خود کو پلاسٹک شیٹ کے ذریعے بارش سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔
بارش سے بچنے کے لیے ایک شخص نے پلاسٹک کی شیٹ اوڑھی ہوئی ہے۔
آزادی مارچ کے کچھ شرکا نے شامیانوں میں پناہ لی۔ ایسے ہی ایک عارضی ٹینٹ کا منظر جہاں شرکا محو گفتگو ہیں۔
بارش اور سرد موسم سے بچنے کے لیے بعض شرکا نے خیمے بھی لگائے ہوئے تھے۔
مارچ کے شرکا کی جانب سے لگائے گئے خیموں کے درمیان شمسی توانائی سے روشن ہونے والی لائٹس اور سولر پینل کا ایک منظر۔
مارچ کے زیادہ تر شرکا بارش سے بچنے کے لیے اپنے ساتھ پلاسٹک لائے تھے۔
بارش کے سبب کچھ خیموں اور شامیانوں کے نیچے بھی پانی جمع ہو گیا جس کی وجہ سے مارچ کے شرکا کو خیمے خالی کرنا پڑے اور اپنے ساز و سامان کے ساتھ دیگر مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔