کرتار پورہ کی اس تنگ گلی کے دونوں اطراف کھانے کی دکانیں اور ٹھیلے ہیں۔ تو آپ سحری میں کیا کھائیں گے؟ مشہور زمانہ چھوٹے اور بڑے کے پائے یا مغز نہاری؟
یہاں پر انواع و اقسام کے نان اور روٹیاں بھی دستیاب ہیں۔ گرما گرم چنے کے ساتھ اگر تلوں والا لاہوری کلچہ ہو تو کھانے کا مزا ہی دوبالا ہو جاتا ہے۔
پنجاب اور خاص کر لاہور کا ناشتہ نان چنے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ کرتار پورہ میں فروخت ہونے والے انڈے چنے، انڈے کوفتے بہت لذیذ ہوتے ہیں۔
یہاں کھانے پینے کی اشیا کی ایک نہیں کئی دکانیں ہیں جہاں لوگوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ ایک دکان پر رش ہو تو کسی دوسری پر چلے جائیں لیکن ذائقے میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔
ویسے سحری میں ٹھنڈی قلفیاں کھانے کا رواج کم ہی ہے لیکن کرتار پورہ سحری کرنے کے لیے آنے والے افراد دودھ اور کھوئے کی بنی قلفی کھائے بغیر نہیں جاتے۔
یہ ہیں پٹھورے جو ماش کی دال اور میدے سے مل کر بنتے ہیں اور پوری کی طرح کے ان پٹھوروں کو چنے اور سلاد کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ بارش کے بعد قدرے ٹھنڈے موسم میں گرما گرم پٹھوروں کی خوشبو کھانے والوں کو اپنی جانب کھینچ لاتی ہے۔
سحری میں روایتی طور پر دودھ اور پھینیاں کھائی جاتی ہیں۔ آج بھی کئی گھرانوں میں دودھ اور پھینی سے روزہ رکھا جاتا ہے۔
افطار سے سحر تک یہاں میلے کا سا سماں ہوتا ہے۔ تنگ گلی میں زیادہ لوگوں کی آمد سے بھیڑ ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ سحری کے لیے آتے ہیں۔
سحری میں دہی نہ ہو تو بات بنتی نہیں ہے۔ کرتار پورہ کی فوڈ اسٹریٹ میں دہی کے کونڈے اور ان پر جمی ملائی کی موٹی تہہ دیکھ کر منہ میں پانی آ جاتا ہے۔
اتنی مزیدار سحری کا اختتام ٹھنڈی ٹھار لسی کے گلاس پر ہوتا ہے۔ یہاں لسی مشین کے بجائے لکڑی سے بنی مدھانی سے بنتی ہے۔
یہ لچھے دار پراٹھوں کے پیڑے ہیں ۔ میدے کو گھی میں گوندھ کر خوب خستہ پراٹھے بنائے جاتے ہیں۔
آلو بخارے کی کٹھی میٹھی چٹنی اور اس کے اوپر بادام اور چاروں مغز۔
یہاں چھوٹے کے پائے اور انڈا چنے فروخت کیے جا رہے ہیں۔
ویسے تو سری پائے سردیوں میں کھائے جاتے ہیں لیکن کبھی کبھار اپنی سحری کو منفرد بنانے کے لیے لوگ ان سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔