وجاہت عطرے کے انتقال پر اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے، پاکستان فلم انڈسٹری اور پاکستانی موسیقی کے ایک دلدادہ اور پنجاب یونیورسٹی کے استاد، زابر سعید نے ’وائس آف امریکہ کے نمائندے سے جمعہ کی دوپہر کہا کہ ’’وجاہت عطرے نہیں رہے۔۔یا۔۔یوں کہہ لیں پاکستان انڈسٹری نہیں رہی۔۔یا پھر یہ کہ پاکستانی موسیقی ’بیوہ‘ ہوگئی‘‘۔
ایک عام فین کی جانب سے وجاہت عطرے کو اس سے بڑھ کر خراج تحسین پیش نہیں کیا جا سکتا۔ وہ عام آدمی کے پسندیدہ موسیقار تھے، لیکن جمعہ کو موت کا پروانہ کیا آیا وہ لبیک کہتے ہوئے راہی ملک عدم ہوگئے۔
پاکستان فلم اور میوزک انڈسٹری کو متعدد سدا بہار گانے دینے والے میوزک کمپوزر وجاہت عطرے کو اپنے کام اور دھنوں سے اتنا لگاؤ تھا کہ ایک ماہ قبل جب ان پر فالج کا حملہ ہوا تو وہ تب بھی دھنوں کو بنانے اور سنوارنے میں مشغول تھے۔ عمر کے آخری حصے تک انہوں نے اپنے فن سے پیار کیا۔
وہ لاہورکے جناح اسپتال میں زیر علاج تھے۔ مرض فالج کا تھا۔ لیکن، اچانک دل کا دورہ ان کی موت کا بہانہ بن گیا۔ اہل خانہ نے ان کی موت کی خبر میڈیا کو جاری کی۔
وجاہت عطرے 68سال کے تھے۔ نامور موسیقار رشید عطرے کے صاحبزادے تھے۔ اپنے کیریئر کا آغاز 1967 میں فلم ’پرستان‘ سے کیا اور ’چن وریام‘، ’مکھڑا‘، ’شیرخان‘، ’نوکر وہٹی دا‘، ’صاحب جی‘ اور ’عشق خدا‘ سمیت دیگر فلموں کے لئے خوبصورت گانے تخلیق کئے۔
اپنے 40 سالہ کیریئر میں وجاہت عطرے نے بے شمار گانے کمپوز کیے جن میں سے بہت سے گانے ملکہ ترنم نورجہاں نے بھی گائے۔
’سونے دی تویتڑی‘، ’جھانجھر دی پانواں جھنکار‘، اور ’میں تہ میرا دلبر جانی‘ وجاہت عطرے کے بہت سے مشہور گانوں میں شامل ہیں۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق، وجاہت عطرے نے 150 پاکستانی فلموں میں میوزک دیا۔ وجاہت عطرے کی فنی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستا ن نے انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا۔
نئے گلوکاروں میں سے متعدد نے وجاہت عطرے کی مشاورت سے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا اور کامیابی حاصل کی۔