ساحر لدھیانوی کی فلمی شاعری

ساحر لدھیانوی: پل دو پل کا شاعر نہیں بلکہ زندہ رہنے والا شاعر

ساحر صاحب آپ کی شعری اور ادبی صلاحیتوں سے ہمیں انکار نہیں، دنیائے سخن میں آپ کا امتیازی مقام ہے۔ اس کے باوجود آپ سے فلم کے گانے لکھوانا ایک بڑا خطرہ مول لینے کے مترادف ہے: شاہد لطیف

ساحر لدھیانوی کو ناقدینِ ادب نے خارج کر دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی وہ نوجوانوں کے درمیان سب سے مقبول شاعر ہیں اور اردو، ہندی میں ان کی کتابیں سب سے زیادہ فروخت ہوتی ہیں۔ ساحر کی ادبی اور فلمی شاعری الگ الگ نہیں کیونکہ انہوں نے جو کچھ محسوس کیا تھا بلکہ بھوگا اور جیا تھا اسے ہی انہوں نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا تھا۔ وہ خود کہتے ہیں:

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں

ساحر لدھیانوی کا حقیقی نام عبدالحئی تھا، انہوں نے بچپن اور نوجوانی میں بہت ہی سختیاں جھیلی تھیں۔ سنہ 1937ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم کے لئے گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخل ہوئے مگر اپنی بے راہ روی کے سبب وہاں سے نکالے گئے پھر دیال سنگھ کالج کا رخ کیا جہاں ایک معاشقہ کے سبب انہیں کالج سے خارج کر دیا گیا۔ پھر انہوں نے شاعری کو ہی اپنا اوڑھنا، بچھونا بنا لیا۔ طالب علمی کے زمانے میں ہی ان کا شعری مجموعہ ’’ تلخیاں‘‘ شائع ہو چکا تھا۔ جس نے اشاعت کے بعد دھوم مچا دی تھی۔ اس شعری مجموعے کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔

ملک کی تقسیم کے بعد ساحر لاہور سے ممبئی چلے آئے۔ ’’تلخیاں‘‘ کی مقبولیت کے سبب ان کا نام تو وہاں تک پہنچ چکا تھا لیکن کافی دوڑ دھوپ کے باوجود انہیں کسی فلم میں چانس نہیں مل سکا۔ دراصل اس زمانے میں تک بند شاعروں کا سکہ چلتا تھا۔ جن میں ڈی این مدھوک کا نام بے حد اہم تھا۔ ایسی صورت میں فلم پروڈیوسر کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ عصمت چغتائی کے شوہر شاہد لطیف جو کامیاب پروڈیوسر، ڈائریکٹر تھے انہوں نے بھی ساحر سے یہی کہا:

’’ساحر صاحب آپ کی شعری اور ادبی صلاحیتوں سے ہمیں انکار نہیں، دنیائے سخن میں آپ کا امتیازی مقام ہے۔ اس کے باوجود آپ سے فلم کے گانے لکھوانا ایک بڑا خطرہ مول لینے کے مترادف ہے۔‘‘

ساحر نے فلمی دنیا میں بہت سخت اور طویل جدو جہد کی۔ ایک دن اچانک ان کی ملاقات پروڈیوسر موہن سہگل سے ہو گئی تو موہن سہگل نے انہیں مشورہ دیا کہ ان دنوں ایس ڈی برمن کا ستارہ عروج پر ہے اور انہیں کوئی اچھا گیت لکھنے والا نہیں مل رہا ہے۔ تم کل جا کر ان سے مل لو وہ نئی صلاحیتوں کی قدر کرنے والے میوزک ڈائریکٹر ہیں اگر تم نے ان کی مرضی کے مطابق گانا لکھ لیا تو یقیناً تمہاری قسمت چمک جائے گی۔

ساحر نے موہن سہگل کی بات مان لی اور وہ ایس ڈی برمن کے یہاں چلے گئے۔ برمن بنگالی تھے۔ انہیں ساحر کے ادبی مقام سے آشنائی نہیں تھی۔ لیکن جب انہوں نے دھن سنائی اور ساحر نے فوراً ہی اس پر گانا لکھ دیا تو برمن ان سے بے حد متاثر ہوئے۔گانے کے بول ڈائریکٹر اے آر کاردار کو بھی بہت پسند آئے اور انہوں نے اس گانے ’ٹھنڈی ہوائیں، لہرا کے آئیں، رت ہے جواں، تم ہو کہاں، کیسے بلائیں‘ کو اپنی فلم ’نوجوان‘ میں شامل کر لیا۔ ا س کے بعد تو ساحر اور ایس ڈی برمن کی جوڑی نے فلم انڈسٹری میں دھوم مچا دی۔

دیو آنند نے اپنی فلم ’بازی‘ بنانے کا اعلان کیا تو ساحر سے ہی گیت لکھوائے۔ اس فلم کے گانے بھی سپر ہٹ ہوئے۔


ساحر کی آواز اور آہنگ فلمی دنیا کے گیتوں میں ایک نیا اور انوکھا تجربہ تھا۔ جس نے شائقین کو نئے ذائقے سے آشنا کیا۔ انہوں نے جن فلموں میں گانے لکھے وہ باکس آفس پر بے حد کامیاب رہیں۔ فلم’برسات کی رات‘ میں ساحر موسیقار روشن کے ساتھ تھے اور اس فلم کے گانوں نے بھی بہت مقبولیت حاصل کی تھی۔ اس فلم کا گانا ’زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات‘ بناکا گیت مالا میں سال کا مقبول ترین نغمہ قرار پایا۔ اس کے علاوہ اسی فلم کی قوالی


نہ تو کارواں کی تلاش ہے نہ تو ہمسفرکی تلاش ہے
مرے شوق خانہ خراب کو تری رہ گزر کی تلاش ہے


آج بھی فلمی دنیا کی سب سے مقبول قوالی سمجھی جاتی ہے۔


اسی فلم کا ایک اور گانا بہت مقبول ہوا تھا:

میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
اجنبی سی ہو مگر غیر نہیں لگتی ہو
وہم سے بھی ہو جو نازک وہ یقیں لگتی ہو
ہائے یہ پھول سا چہرہ یہ گھنیری زلفیں
میرے شعروں سے بھی تم مجھ کوحسیں لگتی ہو


اس کے علاوہ گرو دت کی فلم ’پیاسا‘ میں بھی ساحر نے جو گانے لکھے تھے انہوں نے مقبولیت کے آسمان کو چھو لیا تھا۔ دراصل اس فلم میں جس شاعر کا کردار پیش کیا گیا ہے اس کو ساحر کی زندگی سامنے رکھ کر ہی تخلیق کیا گیا تھا اور اس زمانے میں ہی ناظرین نے محسوس کیا تھا کہ شاعر ساحر کو کتنے کرب ناک حالات سے گزرنا پڑا ہے۔ان کا ایک اور گانا بی آر چوپڑا کی فلم ’سادھنا‘ میں آیا تھا اور اسے بھی غیر معمولی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی تھی:

عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا
تلتی ہے کہیں دیناروں میں بکتی ہیں کہیں بازاروں میں
ننگی نچوائی جاتی ہے عیاشوں کے درباروں میں
یہ وہ بے عزت چیز ہے جو بٹ جاتی ہے عزت داروں میں

ساحر لدھیانوی نے فلمی شاعری کو بے تکے الفاظ کے جنگل سے باہر نکال کر بامقصد شاعری سے آشنا کیا تھا اس لئے ان کے فلمی گانوں کا انداز بھی بہت ہی نرالا اور مؤثر ہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ا س میں ان کے اپنے افکار و خیالات ڈھل کر سامنے آتے ہیں۔ ان کے نظریات کا پر تو سامنے آتا ہے۔ ان کے یہاں جو درد و کرب ہے وہ بھی پورے طور پر ان نغموں میں در آیا ہے۔
یہ محلوں یہ تختوں یا تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

یا پھر

میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا

اس کے علاوہ ساحر نے کئی فلمی نغموں میں اپنا کردار اور درد و کرب پیش کیا ہے لیکن خاص طور پر یش چوپڑا کی فلم ’کبھی کبھی‘ میں ان کا پورا سراپا نظر آتا ہے:


میں پل دو پل کا شاعر ہوں
پل دو پل مری کہانی ہے
پل دو پل میری ہستی ہے
پل دو پل مری جوانی ہے
مجھ سے پہلے کتنے شاعر آئے
اور آ کر چلے گئے
کچھ آہیں بھر کر لوٹ گئے
کچھ نغمے گا کر چلے گئے
وہ بھی اک پل کا قصہ تھے
میں بھی اک پل کا قصہ ہوں
کل تم سے جدا ہو جاؤں گا
گو آج تمہارا حصہ ہوں
کل اور آئیں گے نغموں کی
کھلتی کلیاں چننے والے
مجھ سے بہتر کہنے والے
تم سے بہتر سننے والے
کل کو ئی مجھ کو یاد کرے
کیوں کوئی مجھ کو یاد کرے
مصروف زمانہ میرے لئے
کیوں وقت اپنا برباد کرے

لیکن وقت نے ثابت کیا کہ ساحر پل دو پل کے شاعر نہیں تھے اور انہوں نے جو کچھ کہا وہ کارِ زیاں نہیں تھا۔ اس لیے 30 برس گزر جانے کے باوجود ان کے نغمے آج بھی عوام کے درمیان مقبول ہیں۔

25 اکتوبر سنہ 1980ءکو اس البیلے شاعر کا ممبئی میں انتقال ہو گیا اور وہیں قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی ان کی قبر پر ان کے چاہنے والوں نے ایک مقبرہ تعمیر کیا تھا لیکن جنوری سنہ 2010ء میں اسے منہدم کر دیا گیا۔اب اس کی قبر کا بھی کچھ نشاں پایا نہیں جاتا۔