ایک سستی اور عام استعمال کی دوا ڈیگسامیتھازون کرونا وائرس کے مریضوں کی جان بچانے کی کوششوں میں موثر ثابت ہوئی ہے اور اسے سائنس دانوں نے بڑی پیشرفت قرار دیا ہے۔
یہ دوا دوسری بیماریوں سے پیدا ہوجانے والی جلن کو کم کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ منگل کو اس دوا کے تجربات کے نتائج کا اعلان کیا گیا جن سے ظاہر ہوا کہ اس نے اسپتالوں میں داخل کرونا وائرس کے شدید بیمار مریضوں کی اموات میں ایک تہائی کمی کی ہے۔
تجربات کی سربراہی کرنے والے ماہرین نے کہا ہے کہ نتائج سے ترغیب ملتی ہے کہ اس دوا کو کرونا وائرس کے شکار شدید بیمار مریضوں کے لیے فوری طور پر معیاری علاج بن جانا چاہیے۔
آکسفرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مارٹن لینڈری نے ریکوری ٹرائل کے نام سے کیے جانے والے تجربات کی مشترکہ طور پر سربراہی کی۔ ان کے مطابق، نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ کرونا وائرس میں مبتلا ایسے مریض جو وینٹی لیٹرز پر ہوں یا انھیں آکسیجن کی ضرورت ہو، اگر انھیں ڈیگسامیتھازون دی جائے تو زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں اور ایسا بہت کم قیمت پر کیا جاسکتا ہے۔
انھوں نے آن لائن بریفنگ میں رپورٹرز کو بتایا کہ کسی اور دوا کا ڈیگسامیتھازون کا متبادل ہونا بہت مشکل ہے۔ 63 ڈالر سے کم میں آٹھ مریضوں کو یہ دوا دی جاسکتی ہے اور ایک جان بچائی جاسکتی ہے۔
ان کے ساتھی پیٹر ہوربی نے کہا کہ ڈیگسامیتھازون اب تک واحد دوا ہے جس نے اموات کو کم کیا ہے اور ایسا نمایاں طور پر ہوا ہے۔ یہ ایک بڑی پیشرفت ہے۔ یہ کم قیمت ہے، بآسانی دستیاب ہے اور دنیا بھر میں مریضوں کی جان بچانے کے لیے فوری طور پر استعمال کی جاسکتی ہے۔
اس تجربے میں 2100 مریضوں کا جائزہ لیا گیا جنھیں ڈیگسامیتھازون دی گئی تھی جبکہ 4300 ایسے مریضوں کا بھی مشاہدہ کیا گیا جنھیں یہ دوا نہیں دی گئی۔
مارٹن لینڈری نے بتایا کہ دوا لینے کی وجہ سے وینٹی لیٹر پر موجود ہر آٹھ مریضوں میں سے ایک کی جان بچ گئی جبکہ آکسیجن لینے والے ہر 25 مریضوں میں سے ایک بچ گیا۔
جن مریضوں کو آکسیجن کی ضرورت نہیں پڑتی، انھیں یہ دوا لینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
پیٹر ہوربی نے کہا کہ آکسیجن لینے پر مجبور مریضوں کے زندہ بچ جانے کا فائدہ خاصا واضح ہے اس لیے ایسے مریضوں کے لیے ڈیگسامیتھازون کو معیاری علاج بن جانا چاہیے۔
فلاحی تنظیم ویلکم ٹرسٹ کے ماہر نک کیمک نے کہا کہ یہ نتائج دنیا بھر میں انسانی جان اور معیشتوں پر عالمگیر وبا کے اثرات کم کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے اور بے شمار جانیں بچائی جاسکیں گی۔
ریکوری ٹرائل کا آغاز اپریل میں کیا گیا تھا جن میں کرونا وائرس کے مریضوں کو مختلف قسم کے علاج تجویز کیے گئے۔ ان میں کم مقدار میں ڈیگسامیتھازون اور ملیریا کی دوا ہائیڈروآکسی کلوروکوئن کا استعمال شامل تھا۔
ہائیڈروآکسی کلوروکوئن کا کلینیکل تجربہ اس ماہ کے آغاز میں روک دیا گیا تھا کیونکہ ہوربی اور لینڈری کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے اس دوا کا استعمال بے سود ہے۔