شرمیلا ٹیگور کی خوشگوار یادوں کے ساتھ بھارت واپسی

پاکستان آکر بہت اچھا لگا: ’’یہاں کے لوگ مہمان نواز اور کھانے کمال کے ہیں‘‘۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’بھارت میں پاکستانی کلچر بہت مقبول ہے، وہ خود فریدہ خانم کی غزلیں اور پاکستانی میوزک پسند کرتی ہیں‘‘

لاہور ادبی میلے میں شرکت کی غرض سے پاکستان آنے والی بالی ووڈ کی سینئر ایکٹریس شرمیلا ٹیگور خوشگوار یادوں کے ساتھ پیر کو واہگہ کے راستے بھارت روانہ ہوگئیں۔

بھارت جاتے جاتے وہ یہ پیغام بھی دے گئیں کہ’آگے بڑھنے کے لئے آزادیِ اظہار اور روشن خیالی ضروری ہے۔ ہم مل کر خطے کا سیاسی اور ثقافتی رویہ تبدیل کر سکتے ہیں۔‘

انہوں نے لاہور میں اپنے قیام کو خوشگوار قرار دیتے ہوئے اور کہا کہ’’پاکستان آکر بہت اچھا لگا۔ یہاں کے لوگ مہمان نواز اور کھانے کمال کے ہیں‘‘۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’بھارت میں پاکستانی کلچر بہت مقبول ہے۔ وہ خود فریدہ خانم کی غزلیں اور پاکستانی میوزک پسند کرتی ہیں‘‘۔

انہیں اتوار کو بھارت واپس جانا تھا۔ لیکن، پولیس رپورٹ نہ ہونے پر انہیں واہگہ بارڈر پر روک لیا گیا۔ فیکس کے ذریعے ان کی پولیس رپورٹ منگوائی گئی۔ لیکن، شرمیلا نے وطن واپسی پیر تک کیلئے مؤخر کر دی تھی۔

وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات
اس سے قبل ہفتے کو انہوں نے رائے ونڈ میں واقع وزیراعظم نواز شریف سے ان کے گھر جاکر ملاقات بھی کی۔ وزیر اعظم نے ان کے اعزاز میں ضیافت کا بھی اہتمام کیا اور دیگر اہل خانہ سے بھی شرمیلا کی ملاقات کرائی۔

بچپن، خاندانی پس منظر اور پیشہ ورانہ زندگی سے جڑی یادیں


شرمیلا ٹیگور ’لاہور لٹریری فیسٹیول‘ میں شرکت کے لئے پاکستان آئیں تھیں جس کی پہلی نشست میں انہوں نے اپنی ذاتی زندگی، خاندانی پس منظر، فلمی دنیا سے جڑی شخصیات اور ان کی یادوں کو تازہ کیا۔

شرکا کی غیر معمولی دلچسپی
ان کے خطاب کے دوران، ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور لوگوں نے بہت مطمئن اور سنجیدہ انداز میں ان کی باتوں سے لطف اٹھایا۔ مقامی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے بھی ان کے سیشن کو نمایاں کوریج دی۔ گفتگو کے دوران تمام وقت شرمیلا ٹیگور کے چہرے پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ رقصاں رہی۔

خوشگوار لہجے میں شرمیلا ٹیگور نے کہا کہ”بھارت میں پاکستانی کلچر بہت مقبول ہے۔ وہ چاہے میوزک کی صورت میں ہو یا فیشن کی صورت میں ہو یا ڈراموں کی صورت میں۔ وہاں پاکستانی ڈرامے بہت زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ انگنت بھارتی عوام ان ڈراموں کی پرستار ہے۔“

’دوبارہ بلایا گیا تو انتہائی خوش دلی سے آؤں گی‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ”گرچہ میں زیادہ تر ساڑھی پہنتی ہوں، لیکن پاکستانی شلوار قمیص بہت پسند ہے۔ یہاں آخر خوب کھانے کھائے۔ بہت سی ڈشز آزمائیں۔جتنا پیار ملا ہے اسے محسوس کرتے ہوئے کہتی ہوں دوبارہ بلایا گیا تو انتہائی خوش دلی سے آؤں گی۔“

اپنے مرحوم شوہر کو یاد کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ ”منصور خان پٹودی سے ملاقات ایک تقریب میں ہوئی تھی۔ انھوں نے شادی کے لئے پروپوز کیا، میں نے ہاں کردی اور یوں 23 برس کی عمر میں ہماری شادی ہوگئی۔“

بچپن میں فلم دیکھنے کی اجازت نہیں تھی
اپنے بچپن اور دادا کے حوالے سے انہوں نے معلومات شیئر کرتے ہوئے کہا ”میرا تعلق جوائنٹ فیملی سے تھا اور میرے دادا اپنے بہن بھائیوں اور دوسرے رشتے داروں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے۔ سب کے ساتھ مل کر کھانا پینا اور کھیلنا کودنا بہت اچھا لگتا تھا۔ میرے دادا نہایت بااصول آدمی تھے، سارا دن گھر کے صحن میں ہی موجود رہتے تھے۔ اس زمانے میں ریڈیو ہی تفریح کا واحد ذریعہ تھا، ہمیں فلم دیکھنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔“

کیرئیر کا آغاز
والد کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”میرے والد کا نام جی ایم ٹیگور تھا اور ان کا تعلق کلکتہ کی ایک لبرل فیملی سے تھا۔“ فنی کیرئیر کے حوالے سے انہوں نے بتایا ”فنی کیریئر کی ابتدا بنگالی فلموں سے کی۔ پہلی فلم ’اوپو سنسار‘ تھی جس کے ڈائریکٹر ستیہ جیت رائے تھے۔ ان کا شمار عظیم ڈائریکٹرز میں ہوتا ہے۔ پہلی فلم میں ہی ان کے ساتھ کام کرنا میرے لیے اعزاز کی بات تھی۔

ستیہ جیت رائے سے تعلق
مایہ ناز ادکارہ نے دورانِ گفتگو اپنے اور معروف فلم ساز، ستیہ جیت رائے کے تعلق پر بھی روشنی ڈالی۔ شرمیلا ٹیگور کا کہنا تھا کہ ستیہ جیت رائے کے نزدیک پیسہ اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ لوگ اب بھی ستیہ جیت کی فلموں میں موجود رومینس سے خود کو جڑا محسوس کرتے ہیں۔ ستیہ سادہ آدمی تھے۔فون بھی خود اٹینڈ کرتے تھے اور خطوں کے جواب بھی خود ہی دیا کرتے تھے۔

کیرئیر کو ازدواجی زندگی پر ترجیح نہیں دی
اس دوران ان کی ہٹ فلموں کے کلپس بھی دکھائے گئے جن پر انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے ماضی کی فلموں کی تشکیل اور منسلک واقعات پر سے پردہ اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ”فلم ’ارادھنا‘ اور ’امر پریم‘ ان کی شادی کے بعد ریلیز ہوئیں اور ہٹ ہوئیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ شادی آپ کی مقبولیت پر اثر انداز ہو۔“

ان کا مزید کہنا تھا کہ ”میں نے کبھی کیرئیر کو ازدواجی زندگی پر ترجیح نہیں دی جس پر میں خوش اور مطمئن ہوں۔“