سندھ کلچرل ڈے منانے کا آغاز2009ء میں ایک سینئر صحافی کی جانب سے سابق صدر آصف زرداری کو سندھی ٹوپی پہننے پر تنقید کے ردِعمل کے طو ر پر شروع ہوا تھا۔
کراچی —
’سندھ کلچرل ڈے‘ یا ’سندھی ٹوپی اجرک ڈے‘ منانے کا رواج صرف پانچ سال پرانا ہے۔ لیکن، اس حوالے سے منایا جانے والا جشن دیکھیں تو اس کے آگے عید بھی پھیکی پڑتی نظر آئے گی۔ روایتی گانوں کی دھنوں پر رقص، ڈھول اور دھمال، نئے نئے انداز کے کپڑے، لمبی لمبی ریلیاں، فتح کے نشان، ہوائی فائرنگ، جلوس، ہنگامے اور مبارکبادوں کا شور۔ ۔۔سادہ سی عید میں بھلا یہ سب کہاں۔
اس بار، کلچرل ڈے میں یوں بھی زیادہ ہنگامہ آرائی رہی کہ اس دن اتوار تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جئے سندھ قومی محاذ، جئے سندھ متحدہ محاذ، عوامی تحریک، سندھ ترقی پسند پارٹی اور سندھ یونائٹیڈ پارٹی سمیت دو درجن کے قریب قوم پرست جماعتیں اس دن کے اہتمام میں پیش پیش رہیں۔
سندھ کے 100 سے زائد چھوٹے بڑے شہروں اور علاقوں میں صبح ہی سے ریلیاں نکلنا شروع ہوگئی تھیں۔ ان ریلیوں میں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنماوٴں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
حیدرآباد سے نکلنے والی ریلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر سینیٹرمولا بخش چانڈیو نے بھی شرکت کی۔ انہوں نے موقع کے مناسبت سے اجرک اور سندھی ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ صحافیوں سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا، ’یہ دن منانے کا مقصد لوگوں کو سندھ کی 5000 سالہ تاریخ سے روشناس کرانا ہے۔اس تاریخ میں سندھی ٹوپی اور اجرک کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔‘
سندھ کلچرل ڈے منانے کا آغاز2009ء میں ایک سینئر صحافی کی جانب سے سابق صدر آصف زرداری کو سندھی ٹوپی پہننے پر تنقید کے رد عمل کے طو ر پر شروع ہوا تھا۔ اب جیسے جیسے ماہ و سال گزر رہے ہیں ، اس دن کے انعقاد میں مزید سے مزید تر گرمجوشی آتی جارہی ہے۔
سندھ کلچرل ڈے منانے سے ایک اور بھی فائدہ ہوا ہے: صوبے میں سندھی اور غیر سندھی قوموں کے درمیان قربت بڑھی ہے۔ خاص کر کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں غیر سندھی قوموں کی اکثریت ہے۔ کلچرل ڈے کے موقع پر اجرک اور ٹوپی بطور تحائف دینے کا رواج بڑھ رہا ہے۔
کراچی میں ہی نوجوانوں نے بڑی تعداد میں بسوں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو اجرکوں کے روایتی رنگوں اور انداز سے سجایا ہوا تھا۔ دن بھر کراچی پریس کلب کے باہر یوم ثقافت کے حوالے سے اندرونِ شہر اور صوبے سے ریلیاں آتی رہیں۔ ریلیوں میں خواتین، لڑکیاں، لڑکے، بچے، نوجوان مرد و بچے سبھی شامل تھے۔
وزیراعلیٰ سندھ کی مشیر شرمیلا فاروقی بھی پریس کلب کے باہر موجود رہیں۔ انہوں نے ’وائس آف امریکہ‘ سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آج محبتیں باٹنے کا دن ہے۔۔۔سب نے ایک دوسرے سے کسی بھی فرق اور اونچ نیچ کا خیال رکھے بغیر محبتیں بانٹیں ہیں۔‘
بدین سے نکلنے والی ریلیوں میں تو اونٹ، گھوڑے اور بیل بھی شامل ہوئے، جنھیں آرائشی سامان سے خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ بعض شہروں میں اس دن کے حوالے سے سیمینارز بھی ہوئے۔ اسکولوں میں مختلف تقریبات بھی ہوئیں۔
کراچی میں پریس کلب کے علاوہ عزیزآباد میں ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر پر بھی کلچرل ڈے کی تقریب ہوئی جس میں انگنت نوجوانوں نے سندھی لوک موسیقی پر رقص کیا۔ شرکاٴ نے روایتی سندھی لباس، اجرک اور ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔
جس تیزی کے ساتھ سال بہ سال سندھ کلچرل ڈے کے موقع پر جشن منایا جارہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے دنوں میں صوبہ پنجاب میں بسنت کی طرح سندھ میں یوم ثقافت ایک منفرد تہوار کی حیثیت اختیار کرجائے گا۔
اس بار، کلچرل ڈے میں یوں بھی زیادہ ہنگامہ آرائی رہی کہ اس دن اتوار تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جئے سندھ قومی محاذ، جئے سندھ متحدہ محاذ، عوامی تحریک، سندھ ترقی پسند پارٹی اور سندھ یونائٹیڈ پارٹی سمیت دو درجن کے قریب قوم پرست جماعتیں اس دن کے اہتمام میں پیش پیش رہیں۔
سندھ کے 100 سے زائد چھوٹے بڑے شہروں اور علاقوں میں صبح ہی سے ریلیاں نکلنا شروع ہوگئی تھیں۔ ان ریلیوں میں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنماوٴں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
حیدرآباد سے نکلنے والی ریلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر سینیٹرمولا بخش چانڈیو نے بھی شرکت کی۔ انہوں نے موقع کے مناسبت سے اجرک اور سندھی ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ صحافیوں سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا، ’یہ دن منانے کا مقصد لوگوں کو سندھ کی 5000 سالہ تاریخ سے روشناس کرانا ہے۔اس تاریخ میں سندھی ٹوپی اور اجرک کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔‘
سندھ کلچرل ڈے منانے کا آغاز2009ء میں ایک سینئر صحافی کی جانب سے سابق صدر آصف زرداری کو سندھی ٹوپی پہننے پر تنقید کے رد عمل کے طو ر پر شروع ہوا تھا۔ اب جیسے جیسے ماہ و سال گزر رہے ہیں ، اس دن کے انعقاد میں مزید سے مزید تر گرمجوشی آتی جارہی ہے۔
سندھ کلچرل ڈے منانے سے ایک اور بھی فائدہ ہوا ہے: صوبے میں سندھی اور غیر سندھی قوموں کے درمیان قربت بڑھی ہے۔ خاص کر کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں غیر سندھی قوموں کی اکثریت ہے۔ کلچرل ڈے کے موقع پر اجرک اور ٹوپی بطور تحائف دینے کا رواج بڑھ رہا ہے۔
کراچی میں ہی نوجوانوں نے بڑی تعداد میں بسوں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو اجرکوں کے روایتی رنگوں اور انداز سے سجایا ہوا تھا۔ دن بھر کراچی پریس کلب کے باہر یوم ثقافت کے حوالے سے اندرونِ شہر اور صوبے سے ریلیاں آتی رہیں۔ ریلیوں میں خواتین، لڑکیاں، لڑکے، بچے، نوجوان مرد و بچے سبھی شامل تھے۔
وزیراعلیٰ سندھ کی مشیر شرمیلا فاروقی بھی پریس کلب کے باہر موجود رہیں۔ انہوں نے ’وائس آف امریکہ‘ سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آج محبتیں باٹنے کا دن ہے۔۔۔سب نے ایک دوسرے سے کسی بھی فرق اور اونچ نیچ کا خیال رکھے بغیر محبتیں بانٹیں ہیں۔‘
بدین سے نکلنے والی ریلیوں میں تو اونٹ، گھوڑے اور بیل بھی شامل ہوئے، جنھیں آرائشی سامان سے خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ بعض شہروں میں اس دن کے حوالے سے سیمینارز بھی ہوئے۔ اسکولوں میں مختلف تقریبات بھی ہوئیں۔
کراچی میں پریس کلب کے علاوہ عزیزآباد میں ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر پر بھی کلچرل ڈے کی تقریب ہوئی جس میں انگنت نوجوانوں نے سندھی لوک موسیقی پر رقص کیا۔ شرکاٴ نے روایتی سندھی لباس، اجرک اور ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔
جس تیزی کے ساتھ سال بہ سال سندھ کلچرل ڈے کے موقع پر جشن منایا جارہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے دنوں میں صوبہ پنجاب میں بسنت کی طرح سندھ میں یوم ثقافت ایک منفرد تہوار کی حیثیت اختیار کرجائے گا۔