دنیا بھر میں جہاں کرونا وائرس سے ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، وہیں بھارت کے شہر وارانسی میں مردوں کی آخری رسومات کے لیے مقدس سمجھے جانے والے شمشان گھاٹ ویران ہو گئے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق کرونا وائرس کی وبا پھیلنے سے پہلے وارانسی کے شمشان گھاٹوں پر ہر روز تقریباً 300 مردے جلائے جاتے تھے۔ لیکن اب یہاں بمشکل 40 مردے ہی سپردِ آتش کیے جا رہے ہیں۔
وارانسی کے شمشان گھاٹ میں پہلے ایک ایک مردے کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے سیکڑوں افراد آتے تھے۔ مگر اب یہ تعداد صرف چار یا پانچ افراد تک محدود ہو گئی ہے۔
بھارتی ریاست اترپردیش میں واقع وارانسی شہر کو ہندو مذہب کے ایک مرکز کی سی حیثیت حاصل ہے۔
ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق مرنے والوں کی آخری رسومات اگر اسی شہر میں ادا کی جائیں تو انسان دوسرے جنم کے جھمیلوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔
وارانسی ہندو مت میں مقدس سمجھے جانے والے دریا ' گنگا' کے کنارے آباد ہے اور جس جگہ مردوں کی آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں وہ شمشان گھاٹ بھی گنگا کے کنارے بنائے گئے ہیں۔ جہاں ایک جانب لوگ سورج طلوع ہونے سے لے کر غروب آفتاب تک دریا کے پانی میں 'اشنان' یعنی غسل کرتے رہتے ہیں تو وہیں پوجا پاٹ کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔
عقیدت مند سورج کی پوجا کرتے ہیں، گیندے کے پیلے پھول دریا برد کرتے اور اپنے عزیز و اقارب کی چتائیں جلاتے ہیں۔ یہ سلسلہ 24 گھنٹے جاری رہتا ہے جس سے وارانسی کے شمشان گھاٹ پر ہر وقت مردوں کو جلائے جانے کی بدبو پھیلی رہتی ہے۔
ہندو مت کے ماننے والے کسی بھی شہر میں رہتے ہوں، یہ کوشش ضرور کرتے ہیں کہ ان کی آخری رسومات وارانسی میں ادا کی جائیں جس کے سبب ہر روز 200 سے 300 مردے یہاں لائے اور جلائے جاتے ہیں۔
بھارت میں مشہور ہے کہ وارانسی کے شمشان گھاٹوں کی آگ کبھی ٹھنڈی ہی نہیں ہوتی۔
'اے ایف پی' کے مطابق جب سے بھارت میں کرونا وائرس کی وبا پھیلی ہے تب سے ایک دن میں صرف 30 سے 40 افراد کی لاشوں کو ہی وارانسی لاکر سپرد آتش کیا جا رہا ہے۔ اس تعداد میں کمی کی بنیادی وجہ ملک بھر میں جاری لاک ڈاؤن ہے۔
اکیاون سالہ جگدیش چوہدری نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ 'منیکرنیکا' وارانسی کی زمین پر واقع سب سے قدیم شمشان گھاٹ ہے۔ ان کے بقول انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی یہ نہیں سنا کہ وارانسی گھاٹ پر سپرد آتش کیے جانے والے مردوں کی تعداد میں اتنی کمی ہوئی ہو جتنی کے ان دنوں نوٹ کی جارہی ہے۔ "اب تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے گھاٹ ویران ہوگیا ہو۔"
جگدیش چوہدری ہندوؤں کی ایک خاص ذات 'ڈومس' سے تعلق رکھتے ہیں جس کا بنیادی کام مردوں کو جلانا اور شمشان گھاٹ کی نگرانی کرنا ہوتا ہے۔
'ڈومس' سے تعلق رکھنے والے افراد ہر مردے کو سفید کپڑے میں لپیٹ کر اسے الگ الگ لکڑیوں کے ڈھیر پر رکھتے اور اسے آگ لگا دیتے ہیں جب کہ چتا جلانے سے پہلے ان پر گیندے کے پھول چڑھانے کی رسم بھی صدیوں پرانی ہے۔
SEE ALSO: بھارت: لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی سے روکنے پر پولیس افسر کا ہاتھ کاٹ دیا گیاچتا کا الاؤ دیر تک جاری رہے اور لاش اچھی طرح جل جائے، اس کے لیے لکڑیوں پر گھی اور مکھن ڈالا جاتا ہے۔ بعد میں لاش کی راکھ اس کے لواحقین کے حوالے کردی جاتی ہے جو اسے دریائے گنگا میں بہا دیتے ہیں۔
گنگا کو ہندو عقائد کے مطابق بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور مقدس روایات کے مطابق اس میں نہانے سے تمام پاپ (گناہ) دھل جاتے ہیں۔
ڈومس اس کام کے عوض زیادہ تر پیسوں اور کھانے پینے کی اشیا طلب کرتے ہیں۔ لیکن اب نہ صرف وہاں بہت کم لاشیں لائی جارہی ہیں بلکہ مردے کے ساتھ آنے والے افراد کی تعداد بھی گھٹ گئی ہے۔
جگدیش چوہدری کا کہنا ہے کہ بدترین آفات اور پر تشدد واقعات یا ہنگاموں کے باوجود بھی وارانسی کے شمشان گھاٹوں پر کبھی اتنی ویرانی دیکھنے کو نہیں ملی۔
ان کے بقول شمشان گھاٹ پر چھائی خاموشی سے اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ اب وہ رات بستر پر آرام سے گزارتے ہیں۔
جگدیش کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پانچ نسلوں میں پہلے ایسے فرد ہیں جو رات کا وقت گھر پر رہ کر گزار رہے ہیں۔
لاک ڈاؤن سے صرف وارانسی کے مقامی لوگ ہی متاثر نہیں ہیں بلکہ کچھ زائرین بھی اس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ لوگ ایک شہر سے دوسرے شہر نہیں جاسکتے کیوں کہ تمام ذرائع آمد ورفت بند ہیں۔
جنوبی بھارت کی ریاست آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے 64 سالہ عقیدت مند ناگا بھوشن راؤ بھی ایسے سیکڑوں لوگوں میں شامل ہیں جو غیر معینہ مدت تک وارانسی میں ہی پھنسے رہیں گے۔
راؤ ایک ٹرک ڈرائیور ہیں۔ انہوں نے 'اے ایف پی' کو بتایا، "میں اپنے بھائی کے اہل خانہ کے ساتھ یہاں شیو مندروں میں پوجا پاٹ کے لیے آیا تھا۔ لیکن یہاں پہنچنے کے بعد ہی لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا گیا۔ ہم نے سوچا نہیں تھا کہ ہمارا قیام اتنا طویل ہوجائے گا۔ ہمیں یہاں پھنسے کئی ہفتے ہوگئے ہیں جب کہ لاک ڈاؤن مزید بڑھا دیا گیا ہے۔"
رپورٹ کے مطابق اس وقت ہزاروں عقیدت مند جو ملک کے مختلف حصوں سے عبادت کی غرض سے اور کچھ لوگ جو آخری رسومات میں شرکت کے لیے یہاں آئے تھے وہ صرف شہر کے ہوٹلوں اور سرائے خانوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
ان افراد کو پیسے کی تنگی کا سامنا ہے۔ وہ مقامی افراد کی طرف سے ملنے والے کھانے پر انحصار کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ ان افراد کا تعلق اڈیسہ، مہاراشٹر اور دیگر جنوبی ریاستوں سے ہے۔