کٹر یا صوفیانہ اسلام، چوائس آپ کی ہے: نیا سٹیج ڈرامہ دارا

کٹر یا صوفیانہ اسلام، چوائس آپ کی ہے: نیا سٹیج ڈرامہ دارا

ڈرامے کے مصنف شاہد محمود ندیم نے اورنگ زیب کے مقابلے میں شاہ جہان کے بڑے بیٹے دارا شکوہ ہیرو کے طور پر پیش کیا ہے۔

فروری کے آخری ہفتے میں اجوکا تھیڑز نے الحمرا آرٹ سنٹر میں "دارا" کے عنوان سے دو گھنٹوں پرمحیط سٹیج ڈرامے میں مغل شہنشاہ شاہجہان کے بڑے بیٹے اور ولی عہد ِسلطنت دارا شکوہ کو موضوع بنایا جو تخت نشینی کی جنگ کے دوران اپنے بھائی اورنگ زیب کے ہاتھوں ماراگیا تھا۔ اس ڈرامے کو کافی تعداد میں لاہور کے شہریوں نے دیکھا۔


لاہور کمرشل سٹیج ڈراموں کا گڑھ ہے اور یہاں فحش ذومعنی پنجابی جگتوں اور رقص سے آراستہ سٹیج ڈرامے بہت کامیاب رہتے ہیں۔ مگر ان کے ساتھ ہی ساتھ دارا جیسے سنجیدہ موضوع پر ڈرامے کو دیکھنے مناسب تعداد میں شائقین کا آجانا فنی تجزیہ کاروں کے لئے حیرت کا موجب بنا۔ ویسے داراشکوہ کو لاھور سےاور بھی کئی وجوہات سے نسبت رہی ہے۔ ایک تو وہ یہاں دفن صوفی بزرگ میاں میر کےشاگرد ملّا شاہ کے سولہ سو چالیس عیسوی میں مرید ہوگئے تھے اور لاہور کے نواح میں واقع شاہدرہ کا پرانا نام یعنی شاہ دارا اسی مغل شہزادے کے نام پر رکھا گیا تھا۔

ڈرامے کے مصنف اور ہدایتکار شاہد محمود ندیم کا کہنا ہے کہ یہ ستم ظریفی کی بات ہے کہ اورنگ زیب کو مسلمانوں کے ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے حالانکہ وہ مغل سلطنت کے زوال کے اسباب میں شامل ہوتا ہے۔ اُنھوں نے کہا اس سٹیج ڈرامے میں اُنہوں نے دارا شکوہ کو اورنگ زیب کے مقابلے میں ہیرو کے طور پر پیش کیا ہے کیونکہ دارا شکوہ اُن کے بقول ہندوستان میں مذ ہبی ہم آہنگی پیدا کرکے اکبرِ اعظم کے انداز میں حکومت کرنا چاہتا تھا۔

اجوکا تھیڑز کی نگران مدیحہ گوہر نے ڈرامے کے افتتاحی شو سے قبل تقریر کرتے ہوئے کہا کہ نصاب کی کتابوں میں جو مغل تاریخ پڑھائی جاتی ہے یہ ڈرامہ اُس سے ہٹ کر ہے اور دارا شکو ہ کو بطور ایک شاعر کے اور ایک صوفی کے پیش کرتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس ڈرامے کا آج کے حالات سے بھی تعلق پیدا ہوتا ہے کیونکہ ہم پاکستانیوں کو کٹر مذ ہبی رجحان رکھنے والے لوگوں کی شدّت پسندی کا سامنا ہے اور یہاں داراشکوہ کےاُس نقطہ نظر کی اور بھی زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی ہےجس میں صوفیائے کرام کے مذہبی ہم آہنگی کے خیالات نمایاں ہوکر سامنے آتے ہیں۔


تاریخ کے ایک ریٹائرڈ اسسٹنٹ پروفیسر خورشید علی نے ڈرامہ دیکھنے کے بعد وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ داراشکوہ کی علم دوستی تاریخ کی کتابوں میں درج ہے اوراُنہیں تصوف سے جو لگاؤ تھا وہ اُن کی تصانیف سکینہ اولیا اور سفینہ اولیاسے عیاں ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ ہندو ویدوں اور اسلامی تصوف کے تقابلی مطالعے پر داراشکوہ کی تصینف مجمع البحرین بھی اہم کتاب سمجھی جاتی ہے جس کا اُن کے بقول فرانسیسی زبان میں اُنیس صدی ہی میں ترجمہ ہوگیا تھا، تاہم اُن کا کہنا تھا کہ جب تخت نشینی کی جنگ شروع ہوئی تو جیسا ڈرامے میں پیش کیا گیا ہے داراشکوہ اور اورنگ زیب کی بہنوں جہاں آرا اور روشن آرا کا کردار بہت اہم تھا اور شاید فیصلہ کن بھی۔ خورشید علی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کے ہمارے ہاں لوگ ہیں جو اورنگ زیب کو ہیرو خیال کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اپنا نقطہ نظر رکھنے کا سب کو حق حاصل ہے اور ڈرامہ دارا کے مصنف نے اُن کے بقول اپنا نقطہ نظر بڑے بھرپور انداز میں اس ڈرامے میں پیش کیا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ ڈرامے میں اُن کے نزدیک اُس دور کی مجذوب شخصیت "سرمد" کا حوالہ بھی بڑا موثر ہے جس نے بعض مورخین کے مطابق اُس دور کے قاضیوں اور مفتیوں کی اتھارٹی کو للکارا تھا۔

ڈرامے میں امیر خسرو، سرمد اور داراشکوہ کا کلام قوالی کے انداز میں بھی پیش کیا گیا ہے۔ خورشید علی کا کہنا تھا کہ قوالیاں کم ہونی چاہیے تھیں اور مکالموں کی شکل میں اس موضوع پر اُس دور کی کئی اور تاریخی حقیقتوں سے سامعین کو روشناس کرایا جاسکتا تھا۔

خورشید علی نے کہا کہ ڈرامہ اس لحاظ سے بہت اچھی کوشش ہے کہ اس سے ہمارے عوام کو خود فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی کہ اُن کو اسلام کا کونسا رُخ قبول کرنا چاہیے۔ وہ کٹر مذ ہبی رُخ جس کی علامت ڈرامے میں بادشاہ اورنگ زیب ہے یا صوفیوں والا مذ ہبی رجحان جس کا نمائندہ داراشکوہ کو دکھایا گیا ہے۔