سرکاری فورسز کے بہت سے لوگ باغیوں سے مل گئے ہیں۔ ان میں دو بریگیڈیر جنرل شامل ہیں جو ترکی پہنچ گئے ہیں۔
بدھ کے روز دمشق میں اعلیٰ سطح کی ایک سیکورٹی میٹنگ میں بم کا زور دار دھماکہ ہو ا جس میں کم از کم تین اعلیٰ شامی عہدے دار ہلاک ہو گئے۔ ان میں صدر بشا رالاسد کے بہنوئی اور ملک کے وزیرِ دفاع شامل تھے۔ اس حملے میں مسٹر اسد کی سیکورٹی ٹیم کے سرکردہ افراد کو نشانہ بنایا گیا اور اس کے نتیجے میں ملک کی فوجی قیادت میں خلا پیدا ہو گیا ہے۔
مسٹر اسد کے خلاف 16 مہینے سے جاری تحریک میں یہ پہلا موقع تھا کہ اعلیٰ سطح کے عہدے دار ہلاک ہوئے۔ شام کی خانہ جنگی پر جس میں تشدد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، اس واقعے سے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں شام کی اس بنیادی قیادت کی ٹیم کے ارکان شامل تھے جو حکومت کے خلاف تحریک کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ صدر کے لیے ہلاک ہونے والوں کا متبادل تلاش کرنا مشکل ہو گا۔ ہلاک ہونے والوں میں وزیرِ دفاع داؤد راجحہ، شام کی فوج میں ڈپٹی چیف آف اسٹاف، جنرل آصف شوکت جو مسٹر اسد کی بڑی بہن کے شوہر تھے اور سابق وزیرِ دفاع اور سینیئر فوجی مشیر حسن ترکمانی شامل ہیں ۔
شام کے سرکاری ٹیلیویژن نے اس دھماکے کو دہشت گردی کا خود کش حملہ قرار دیا جب کہ سیریئن فری آرمی یا (ایف ایس اے) کے کمانڈر ریاض الاسد نے کہا کہ باغی فورسز نے کمرے میں بم نصب کیا اور اسے اڑا دیا۔
سیریئن اسپورٹ گروپ کے برین سئیرز نے شام کے اندر اپنے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ امکان یہی ہے کہ یہ حملہ کسی ایسے شخص نے کیا تھا جو اسد حکومت میں کام کر رہا ہے لیکن جس کی ہمدردیاں حزبِ اختلاف کے ساتھ ہیں۔
فرانس کے ریسرچ سینٹر جرممو کے ڈائریکٹر فبرائز بیلیچی اس رائے سے متفق ہیں۔
’’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کی حکومت کے اندر کچھ لوگ حکومت مخالف عناصر سے ملے ہوئے ہیں اور وہ حکومت کے اندر رہ کر اسے تباہ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
لندن کے چیتم ہاؤس میں مشرقِ وسطیٰ کے ماہر، ندیم شہادی کہتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر کوئی فیصلہ کن اقدام نہ کیے جانے کی وجہ سے، شام کے باغی، صدر اسد کو ہٹانے کے لیے فوجی اقدام کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مخصوص افراد کو نشانہ بنا کر ہلاک کرنے سے حزبِ اختلاف کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
’’اس جھگڑے میں فوج کا عمل دخل جتنا زیادہ ہو گا، بعد میں تبدیلی لانے کا عمل اتنا ہی مشکل ہو جائے گا۔ جن لوگوں کو آج کل مسلح کیا جا رہا ہے، حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد ان سے ہتھیار واپس لینے ہوں گے۔ اس مرحلے پر بین الاقوامی برادری کا کوئی مضبوط موقف اختیار نہ کرنا، اور مداخلت نہ کرنا، بعد میں بہت مہنگا پڑے گا۔‘‘
شہادی نے بدھ کے روز کی کارروائی کو دو دھاری تلوار قرار دیا کیوں کہ ان کے خیال میں باغیوں کے لیے حکومت کو صرف فوجی طاقت کے بل پر شکست دینا ممکن نہیں ہے۔
الیوٹ ابراہمز صدر جارج ڈبیلو بش کے تحت امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ بدھ کے روز جن لوگوں کو ہلاک کیا گیا ہے اسے مسٹر اسد کی علویہ فرقے کے اندرونی حلقے کو اپنے لیے انتباہ سمجھنا چاہیئے۔
’’وزیرِ دفاع عیسائی تھے اور وہ ملک کے حکمران علویہ فرقے کا حصہ نہیں تھے۔ لیکن جنرل آصف شوکت کا تعلق مراعات یافتہ علویہ فرقے سے تھا جو اب جانتا ہے کہ اس کا مستقبل خطرے میں ہے۔ اسد کے لیے ایک یا دو افراد کے بغیر حکومت کرنا ممکن ہے۔ لیکن اس واقعے سے اس حکومت کی جڑیں ہل گئی ہیں اور ہر ایک کو نظر آ رہا ہے کہ ان کے لیے وقت تنگ ہو رہا ہے۔‘‘
دمشق میں رہنے والے صحافی فرہاد حما نے وائس آف امریکہ کی کردش سروس کو بتایا کہ ان ہلاکتوں سے مسٹر اسد کی حکومت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ ’’سیکورٹی کے لحاظ سے اب دمشق میں افرا تفری پھیل گئی ہے کیوں کہ ہلاک ہونے والے لوگوں کا شام کی فوج اور سیکورٹی فورسز پر براہِ راست کنٹرول اور اثر تھا۔‘‘
اس حملے سے سرکاری سپاہیوں اور حکومت مخالف عناصر میں کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے اور دمشق کے کئی علاقوں میں شدید جھڑپوں کی اطلاعات ملی ہیں۔ شام کے دارالحکومت میں ٹریفک بہت کم ہے اور تقریباً تمام دوکانیں بند ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ سرکاری فورسز کے بہت سے لوگ باغیوں سے مل گئے ہیں۔ ان میں دو بریگیڈیر جنرل شامل ہیں جو ترکی پہنچ گئے ہیں۔
مسٹر اسد کے خلاف 16 مہینے سے جاری تحریک میں یہ پہلا موقع تھا کہ اعلیٰ سطح کے عہدے دار ہلاک ہوئے۔ شام کی خانہ جنگی پر جس میں تشدد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، اس واقعے سے دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں شام کی اس بنیادی قیادت کی ٹیم کے ارکان شامل تھے جو حکومت کے خلاف تحریک کو کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ صدر کے لیے ہلاک ہونے والوں کا متبادل تلاش کرنا مشکل ہو گا۔ ہلاک ہونے والوں میں وزیرِ دفاع داؤد راجحہ، شام کی فوج میں ڈپٹی چیف آف اسٹاف، جنرل آصف شوکت جو مسٹر اسد کی بڑی بہن کے شوہر تھے اور سابق وزیرِ دفاع اور سینیئر فوجی مشیر حسن ترکمانی شامل ہیں ۔
شام کے سرکاری ٹیلیویژن نے اس دھماکے کو دہشت گردی کا خود کش حملہ قرار دیا جب کہ سیریئن فری آرمی یا (ایف ایس اے) کے کمانڈر ریاض الاسد نے کہا کہ باغی فورسز نے کمرے میں بم نصب کیا اور اسے اڑا دیا۔
سیریئن اسپورٹ گروپ کے برین سئیرز نے شام کے اندر اپنے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ امکان یہی ہے کہ یہ حملہ کسی ایسے شخص نے کیا تھا جو اسد حکومت میں کام کر رہا ہے لیکن جس کی ہمدردیاں حزبِ اختلاف کے ساتھ ہیں۔
فرانس کے ریسرچ سینٹر جرممو کے ڈائریکٹر فبرائز بیلیچی اس رائے سے متفق ہیں۔
’’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کی حکومت کے اندر کچھ لوگ حکومت مخالف عناصر سے ملے ہوئے ہیں اور وہ حکومت کے اندر رہ کر اسے تباہ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
لندن کے چیتم ہاؤس میں مشرقِ وسطیٰ کے ماہر، ندیم شہادی کہتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر کوئی فیصلہ کن اقدام نہ کیے جانے کی وجہ سے، شام کے باغی، صدر اسد کو ہٹانے کے لیے فوجی اقدام کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مخصوص افراد کو نشانہ بنا کر ہلاک کرنے سے حزبِ اختلاف کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
’’اس جھگڑے میں فوج کا عمل دخل جتنا زیادہ ہو گا، بعد میں تبدیلی لانے کا عمل اتنا ہی مشکل ہو جائے گا۔ جن لوگوں کو آج کل مسلح کیا جا رہا ہے، حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد ان سے ہتھیار واپس لینے ہوں گے۔ اس مرحلے پر بین الاقوامی برادری کا کوئی مضبوط موقف اختیار نہ کرنا، اور مداخلت نہ کرنا، بعد میں بہت مہنگا پڑے گا۔‘‘
شہادی نے بدھ کے روز کی کارروائی کو دو دھاری تلوار قرار دیا کیوں کہ ان کے خیال میں باغیوں کے لیے حکومت کو صرف فوجی طاقت کے بل پر شکست دینا ممکن نہیں ہے۔
الیوٹ ابراہمز صدر جارج ڈبیلو بش کے تحت امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ بدھ کے روز جن لوگوں کو ہلاک کیا گیا ہے اسے مسٹر اسد کی علویہ فرقے کے اندرونی حلقے کو اپنے لیے انتباہ سمجھنا چاہیئے۔
’’وزیرِ دفاع عیسائی تھے اور وہ ملک کے حکمران علویہ فرقے کا حصہ نہیں تھے۔ لیکن جنرل آصف شوکت کا تعلق مراعات یافتہ علویہ فرقے سے تھا جو اب جانتا ہے کہ اس کا مستقبل خطرے میں ہے۔ اسد کے لیے ایک یا دو افراد کے بغیر حکومت کرنا ممکن ہے۔ لیکن اس واقعے سے اس حکومت کی جڑیں ہل گئی ہیں اور ہر ایک کو نظر آ رہا ہے کہ ان کے لیے وقت تنگ ہو رہا ہے۔‘‘
دمشق میں رہنے والے صحافی فرہاد حما نے وائس آف امریکہ کی کردش سروس کو بتایا کہ ان ہلاکتوں سے مسٹر اسد کی حکومت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ ’’سیکورٹی کے لحاظ سے اب دمشق میں افرا تفری پھیل گئی ہے کیوں کہ ہلاک ہونے والے لوگوں کا شام کی فوج اور سیکورٹی فورسز پر براہِ راست کنٹرول اور اثر تھا۔‘‘
اس حملے سے سرکاری سپاہیوں اور حکومت مخالف عناصر میں کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے اور دمشق کے کئی علاقوں میں شدید جھڑپوں کی اطلاعات ملی ہیں۔ شام کے دارالحکومت میں ٹریفک بہت کم ہے اور تقریباً تمام دوکانیں بند ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ سرکاری فورسز کے بہت سے لوگ باغیوں سے مل گئے ہیں۔ ان میں دو بریگیڈیر جنرل شامل ہیں جو ترکی پہنچ گئے ہیں۔