کہیں ایسا تو نہیں کہ اس آدھی پونی معلومات سے ، جو کسی فیس بک، ٹمبلر، ٹویٹر یا کسی تیسرے ، چوتھے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہیں ،ہم نے ہر موضوع ، ہر مسئلے اور ہر دوست دشمن کے بارے میں ایک رائے قائم کر لی ہے اور یہ گمان بھی رکھتے ہیں کہ جو ہم جانتے ہیں ، وہی سچ ہے۔
آج صبح دفتر آتے ہوئے ٹرین میں ایک خاتون نے مجھ سے پوچھا، کہ کیا پاکستان میں تم کالج اور یونیورسٹی بھی گئی تھیں؟
خاتون میری ہی بلڈنگ میں رہتی ہیں اور آج کل اکثر و بیشتر دفتر جاتے ہوئے ہمارے راستے یونہی مل جاتے ہیں۔
میں نے ان کے چہرے پر بکھری تجسس بھری مسکراہٹ پرغور کیا، سوچا ،پھر کہا۔
’’پاکستان کی جتنی خبریں آپ اپنے اخبار یا ٹی وی پر دیکھتی ہیں ، وہ صرف بری خبریں ہوتی ہیں۔۔ مگر وہاں اچھی باتیں بھی ہوتی ہیں ۔ ۔وہاں اچھے لوگ بھی رہتے ہیں ۔پاکستان میں بہت سی لڑکیاں کالج اور یونیورسٹی جاتی ہیں۔۔تعلیم حاصل کرتی ہیں ۔ ملازمت کرتی ہیں ۔۔۔ بلکہ یونیورسٹی میں میری کلاس میں جتنی بھی لڑکیاں تھیں، ان میں سے اکثر آج کہیں نہ کہیں پڑھا رہی ہیں ۔ٹیچنگ کر رہی ہیں۔ ‘‘
میرے جواب نے خاتون کوحیرت زدہ کر دیا ۔۔۔ اور ان کی حیرت نے مجھے ۔۔۔ وہ اپنے اسٹیشن پر اتر گئیں ۔۔اور میں اب تک اپنی حیرت پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہوں ۔
ہاں۔۔امریکہ میں اکثر لوگ پاکستان کو طالبان کے نام سے جانتے ہیں ۔۔اب کچھ لوگ ملالہ یوسف زئی کے نام سے بھی پہچاننے لگے ہیں ۔۔۔۔ لیکن پاکستان وہ بھی تو ہے ، جہاں مجھے کسی نے کبھی اسکول ، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکا۔ کیا امریکہ میں کسی نے کبھی کوئی پڑھی لکھی پاکستا نی خاتون نہیں دیکھی ؟ ۔۔۔کیا کبھی کسی امریکی نے پاکستانی خاتون ڈاکٹر سے علاج نہیں کروایا ؟ ، جبکہ امریکی ہسپتال انتہائی قابل پاکستانی ڈاکٹروں سے بھرے پڑے ہیں ۔۔
توکہیں مسئلہ یہی تو نہیں ۔۔ کہ فیس بک ، ٹویٹر اور ٹیکنالوجی کے جدید ذرائع نے مختلف بر اعظموں میں رہنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے بجائے ، انہیں ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے ۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس آدھی پونی معلومات سے ، جو کسی فیس بک، کسی ٹمبلر، کسی ٹویٹ ، کسی تیسرے ، چوتھے ذریعے سے ہم تک پہنچ رہی ہیں، ہم نے ہر موضوع، ہر ملک اور ہر مسئلے پر خود ہی ایک رائے قائم کر لی ہے اور یہ گمان بھی ہے کہ جو ہم جانتے ہیں ، وہی سچ ہے۔
سات سال سے امریکہ میں رہنے اور کام کرنے کے باوجود میرے کسی پڑوسی، دفتر میں کام کرنے والے کسی امریکی کو یہ گمان کیوں نہیں ہوا کہ میں بھی تو پاکستان ہوں ؟ ۔۔۔کیا میں نے کوئی ایسا کام کیا ، جس سے ان کے ذہن میں پاکستان کی تصویر خراب ہوئی ہو ۔؟ ۔۔۔ کیوں نہیں سوچا کسی نے کہ پاکستان اس سے مختلف بھی ہو سکتا ہے ، جیسا وہ اپنے خبرنامے میں دیکھتے ہیں ۔؟
شاید ہم وہ پہلی نسل ہیں ، جو اطلاعات کے بلارکاوٹ سیلاب میں بہہ رہی ہے ۔۔ اپنی رائے قائم کرنے کے لئے کسی کو میڈیا کے کسی با اعتبار یا بے اعتبار ادارے کی رائے کی محتاجی نہیں رہی ۔۔۔ میرے گھر کے سامنے ، میری کھڑکی کے باہر کوئی چھوٹا ،بڑا واقعہ ہوگا ، تو میں ایک ٹویٹ کرکے دنیا کو بتا سکتی ہوں کہ کیا ہوا ۔۔۔۔ چاہوں ، تو جھوٹی سچی ہر طرح کی بات اظہار رائے کی آزادی کے نام پر کہہ سکتی ہوں ۔۔۔ یہی میرے ارد گرد ہو رہا ہے ۔ ۔۔مگر کہیں ایسا تو نہیں کہ خبر کو عام کرنے کی یہی آسانی ہمیں کسی موضوع پر پہلے سے موجود رائے ، سٹیریو ٹائپ کو مضبوط کر نے میں بھی مدد دے رہی ہے ؟ ۔۔۔۔۔اور کہیں اسی سوال کا پاکستان کے تناظر میں بھی جائزہ لینے کی ضرورت تو نہیں ؟؟۔
اپنے پچھلے بلاگز سے میں پاکستان کی کہانی کے کچھ ایسے سرے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہوں ، جو میری یادداشتوں کے شہر تک جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پاکستان ، جہاں نہ سوشل میڈیا تھا ۔۔ نہ آزادی اظہار کے اتنے مختلف ذرائع ۔۔۔۔ لوگ وہی تصویریں یاد رکھتے تھے ۔۔جو ملک کا اکلوتا پی ٹی وی انہیں دکھاتا تھا ۔۔۔ سرکاری ٹی وی ، جس کے اوقات کار 24 گھنٹے کے نہیں تھے ۔۔ گھروں میں صبح کا آغاز ریڈیو پاکستان یا بی بی سی کے نیوز بلیٹن سے ہوتا تھا ۔۔۔۔۔۔
میں ٹھیک سے نہیں کہہ سکتی کہ میری دادی یا میرے والد میں سے کون ریڈیو پر صبح کی خبریں سنتا تھا ۔۔ لیکن وہ 1979 کی ایک ایسی ہی صبح تھی ۔۔۔۔۔۔۔ ریڈیو پاکستان سات بجے کا خبرنامہ نشر کر رہا تھا ۔۔ میں سکول جانے سے پہلے اپنی امی کے پکے گھی میں تربتر پراٹھے سے کشتی لڑ رہی تھی ۔۔۔۔ جب میرے کانوں میں اپنی دادی کی آواز پڑی ۔
’’چچ چچ‘‘۔۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔’’چچ چچ۔۔۔۔۔ ہا ہائے ‘‘
ریڈیو پاکستان کا بھاری آواز اور نستعلیق اردو والا نیوز ریڈرکوئی ایسی خبر سنا رہا تھا ۔۔جس نے میری دادی کو اچانک کسی صدمے سے دوچار کیا تھا۔۔۔۔۔
خبر کسی کی پھانسی کی تھی ۔۔جو راولپنڈی کی کسی جیل میں دی گئی تھی ۔۔۔
آج سوچتی ہوں ۔۔تو حیران رہ جاتی ہوں ۔۔میں اپنی نسل کے ہزاروں بچوں کی طرح اپنے اسکول کے دوسرے سال میں پاکستان کی تاریخ کے ایک فیصلہ کن مرحلے کی گواہ بن رہی تھی ۔۔اور بالکل نہیں جانتی تھی ۔
آج میری نسل کا شائد ہی کوئی ایسا پاکستانی ہو، جو یہ نہ جانتا ہو کہ 1979کی پاکستان کی تاریخ میں کیا اہمیت ہے ۔۔۔۔۔ یہ سال پاکستان کے ایک جمہوری وزیر اعظم کی پھانسی کے لئے ہی اہم نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سال بھی تھا ، جس میں سوویت یونین نے Quagmire of empires، سلطنتوں کا قبرستان سمجھے جانے والے افغانستان پر قبضے کا خواب دیکھا تھا ۔
سخت سردی میں گھروں سے نکلنے والے مہاجرین کے لئے گرم کپڑے اور جوتے جمع کرنے کی مہم ہماری کالونی میں بھی چلائی گئی تھی ۔۔میری امی نے بھی استعمال شدہ کمبل، پرانے سویٹر اور فالتو جوتوں کے جوڑے افغان مہاجرین کے فنڈ میں دینے کے لئے نکال کر الگ کئے تھے اور جنوری کی ایک انتہائی سرد شام کو ، گھر کا دروازہ بجاکر امدادی سامان جمع کرنے والوں کے حوالے ۔۔۔۔۔۔۔
بعد کے سالوں میں قومی نشریاتی رابطے پر نشر ہونے والے ٹی وی سے افغان جہاد کی تین سالگراہوں پر عوام کے جذبہ ایمانی کو ابھارنے والے طویل دورانیئے کے تین ڈرامے نشر ہوئے ۔۔۔۔ہر سال کا ایک کھیل ۔۔۔۔۔ہر کھیل کے پس منظر میں ایک گیت کے بول سنائی دیتے تھے ،جو افغان جہاد کے پس منظر میں خاص طور پر تیار کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔گیت کے بول اتنے اثر دار تھے کہ میں آج بھی انہیں ان کی دھن سمیت دوہرا سکتی ہوں ۔۔۔۔
پربتوں کی شان تم !
وادیوں کی جان تم !
سرفروشو!
جانثارو!
یہ وقت ہے وفا کا!!۔۔
گیت کا اثرکتنا گہرا تھا ۔۔۔۔ تب نہیں جانتی تھی ۔۔۔ لیکن آج جانتی ہوں ۔۔
یہ وہی سال تھے ، جب پاکستان میں سرفروشوں اور مجاہدوں کی ایک فصل تیار کی گئی تھی ، جو ملک کے باوردی حکمران کے نفاذ اسلام کے نعروں کےعین مطابق تھی۔۔۔اور جسے بعد میں ان کےغیر منتخب اقتدار کو دوام دینے کے لئے ایک ’’صادق‘‘ اور ’’امین ‘‘ مجلس شوریٰ کی حمایت بھی ضرور حاصل ہوئی ہوگی۔
شاید آپ بھی ایسے ماہرین سے مل چکے ہوں ، جنہیں یقین ہے کہ پاکستان آج تک انہی سالوں کا بویا ہوا کاٹ رہا ہے ۔۔۔لیکن اگر آپ کو یہ موقعہ نہیں ملا ، تو بھی کیا آج آپ اسی فصل کے پکے ہوئے پھل قبائلی علاقوں اور خیبر پختون خواہ میں تباہ شدہ اسکولوں کے ملبے میں تلاش نہیں کر سکتے ۔۔؟
لیکن یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ جو آج طالبان اور جنگجو ہیں ۔۔۔ وہ کل جا نثار اور سرفروش تھے ۔۔۔جو اب فساد کر رہے ہیں ۔۔ کل جہاد کر رہے تھے ۔۔جو آجbad guys ہیں ۔۔۔۔۔۔وہ کل good guys تھے ۔۔۔۔۔تب ایک قومی نشریاتی ٹی وی پاکستانی عوام کے لئے ایک لگا بندھا narrative ، ایک سرکاری نکتہ نظر تشکیل دیتا تھا ۔۔آج پاکستان میں ان گنت ٹی وی چینلز ہیں ۔۔۔۔۔۔اور امریکہ میں بھی ایسا ہی ہے ۔۔۔
جو کام پہلے میڈیا کے سرکاری ادارے کرتے تھے ، وہی کام اب میڈیا کے ’’آزاد‘‘ ادارے بھی کر رہے ہیں ۔
ہر جگہ وہی سودا بیچاجاتا ہے ۔۔ جو بک سکتا ہے۔۔۔
نکتہ نظر وہی ہے ۔۔۔ جو مقبول ہے ۔۔
دانشور وہی ہے ، جو عوامی رائے کا ترجمان ہے۔۔۔۔۔۔
اور عوامی رائے کون ہے ؟۔۔۔۔۔سلطان راہی کی فلم ہے۔ ۔۔نور جہاں کا گانا ہے ۔۔شارجہ کپ کا چھکا ہے۔۔۔ علی ظفر کی چھنو ہے ۔۔۔۔ابرار الحق کی بلو ہے ۔۔۔۔۔۔ہنگامہ ۔۔۔۔شور و غل ۔۔۔نعرے ۔۔۔وعدے۔۔۔۔۔ اورپھر ایک لمبی ، پر اسرار خاموشی ۔
تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم سب ہی کو اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔۔ہم ، جو میڈیا کے اندر ہیں اور ہم ، جو میڈیا کے باہر ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ہم ہی ہیں جو کسی narrative کو مقبول بناتے ہیں ، اور ہم ہی ہیں ، جو اسے عام کرنے کے زمہ دار ہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ میڈیا کے مخالف سیاروں پر رہنے والے ، مصنوعی روشنیوں کے جنگل میں ایک ایسے شیر کا شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، جو کہیں موجود ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
بانو قدسیہ اپنی کتاب حاصل گھاٹ میں لکھتی ہیں ، سچائی کی تلاش ایک تنہا کر دینے والا سفر ہے۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہی کہتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کڑوی ،خاردار اور بے آرام کرنے والی سچائیاں کبھی مقبول عام narrative نہیں بن سکتیں ۔۔۔کبھی ہماری سہولت اور خواہش کے مطابق نہیں ہو سکتیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن کیا حرج ہے ۔۔۔ایک کوشش ہی سہی ۔۔۔۔۔ناکام ہی سہی ۔
خاتون میری ہی بلڈنگ میں رہتی ہیں اور آج کل اکثر و بیشتر دفتر جاتے ہوئے ہمارے راستے یونہی مل جاتے ہیں۔
میں نے ان کے چہرے پر بکھری تجسس بھری مسکراہٹ پرغور کیا، سوچا ،پھر کہا۔
’’پاکستان کی جتنی خبریں آپ اپنے اخبار یا ٹی وی پر دیکھتی ہیں ، وہ صرف بری خبریں ہوتی ہیں۔۔ مگر وہاں اچھی باتیں بھی ہوتی ہیں ۔ ۔وہاں اچھے لوگ بھی رہتے ہیں ۔پاکستان میں بہت سی لڑکیاں کالج اور یونیورسٹی جاتی ہیں۔۔تعلیم حاصل کرتی ہیں ۔ ملازمت کرتی ہیں ۔۔۔ بلکہ یونیورسٹی میں میری کلاس میں جتنی بھی لڑکیاں تھیں، ان میں سے اکثر آج کہیں نہ کہیں پڑھا رہی ہیں ۔ٹیچنگ کر رہی ہیں۔ ‘‘
میرے جواب نے خاتون کوحیرت زدہ کر دیا ۔۔۔ اور ان کی حیرت نے مجھے ۔۔۔ وہ اپنے اسٹیشن پر اتر گئیں ۔۔اور میں اب تک اپنی حیرت پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہوں ۔
توکہیں مسئلہ یہی تو نہیں ۔۔ کہ فیس بک ، ٹویٹر اور ٹیکنالوجی کے جدید ذرائع نے مختلف بر اعظموں میں رہنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے بجائے ، انہیں ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے ۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس آدھی پونی معلومات سے ، جو کسی فیس بک، کسی ٹمبلر، کسی ٹویٹ ، کسی تیسرے ، چوتھے ذریعے سے ہم تک پہنچ رہی ہیں، ہم نے ہر موضوع، ہر ملک اور ہر مسئلے پر خود ہی ایک رائے قائم کر لی ہے اور یہ گمان بھی ہے کہ جو ہم جانتے ہیں ، وہی سچ ہے۔
سات سال سے امریکہ میں رہنے اور کام کرنے کے باوجود میرے کسی پڑوسی، دفتر میں کام کرنے والے کسی امریکی کو یہ گمان کیوں نہیں ہوا کہ میں بھی تو پاکستان ہوں ؟ ۔۔۔کیا میں نے کوئی ایسا کام کیا ، جس سے ان کے ذہن میں پاکستان کی تصویر خراب ہوئی ہو ۔؟ ۔۔۔ کیوں نہیں سوچا کسی نے کہ پاکستان اس سے مختلف بھی ہو سکتا ہے ، جیسا وہ اپنے خبرنامے میں دیکھتے ہیں ۔؟
اپنے پچھلے بلاگز سے میں پاکستان کی کہانی کے کچھ ایسے سرے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہوں ، جو میری یادداشتوں کے شہر تک جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پاکستان ، جہاں نہ سوشل میڈیا تھا ۔۔ نہ آزادی اظہار کے اتنے مختلف ذرائع ۔۔۔۔ لوگ وہی تصویریں یاد رکھتے تھے ۔۔جو ملک کا اکلوتا پی ٹی وی انہیں دکھاتا تھا ۔۔۔ سرکاری ٹی وی ، جس کے اوقات کار 24 گھنٹے کے نہیں تھے ۔۔ گھروں میں صبح کا آغاز ریڈیو پاکستان یا بی بی سی کے نیوز بلیٹن سے ہوتا تھا ۔۔۔۔۔۔
میں ٹھیک سے نہیں کہہ سکتی کہ میری دادی یا میرے والد میں سے کون ریڈیو پر صبح کی خبریں سنتا تھا ۔۔ لیکن وہ 1979 کی ایک ایسی ہی صبح تھی ۔۔۔۔۔۔۔ ریڈیو پاکستان سات بجے کا خبرنامہ نشر کر رہا تھا ۔۔ میں سکول جانے سے پہلے اپنی امی کے پکے گھی میں تربتر پراٹھے سے کشتی لڑ رہی تھی ۔۔۔۔ جب میرے کانوں میں اپنی دادی کی آواز پڑی ۔
’’چچ چچ‘‘۔۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔’’چچ چچ۔۔۔۔۔ ہا ہائے ‘‘
ریڈیو پاکستان کا بھاری آواز اور نستعلیق اردو والا نیوز ریڈرکوئی ایسی خبر سنا رہا تھا ۔۔جس نے میری دادی کو اچانک کسی صدمے سے دوچار کیا تھا۔۔۔۔۔
آج سوچتی ہوں ۔۔تو حیران رہ جاتی ہوں ۔۔میں اپنی نسل کے ہزاروں بچوں کی طرح اپنے اسکول کے دوسرے سال میں پاکستان کی تاریخ کے ایک فیصلہ کن مرحلے کی گواہ بن رہی تھی ۔۔اور بالکل نہیں جانتی تھی ۔
آج میری نسل کا شائد ہی کوئی ایسا پاکستانی ہو، جو یہ نہ جانتا ہو کہ 1979کی پاکستان کی تاریخ میں کیا اہمیت ہے ۔۔۔۔۔ یہ سال پاکستان کے ایک جمہوری وزیر اعظم کی پھانسی کے لئے ہی اہم نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سال بھی تھا ، جس میں سوویت یونین نے Quagmire of empires، سلطنتوں کا قبرستان سمجھے جانے والے افغانستان پر قبضے کا خواب دیکھا تھا ۔
سخت سردی میں گھروں سے نکلنے والے مہاجرین کے لئے گرم کپڑے اور جوتے جمع کرنے کی مہم ہماری کالونی میں بھی چلائی گئی تھی ۔۔میری امی نے بھی استعمال شدہ کمبل، پرانے سویٹر اور فالتو جوتوں کے جوڑے افغان مہاجرین کے فنڈ میں دینے کے لئے نکال کر الگ کئے تھے اور جنوری کی ایک انتہائی سرد شام کو ، گھر کا دروازہ بجاکر امدادی سامان جمع کرنے والوں کے حوالے ۔۔۔۔۔۔۔
پربتوں کی شان تم !
وادیوں کی جان تم !
سرفروشو!
جانثارو!
یہ وقت ہے وفا کا!!۔۔
گیت کا اثرکتنا گہرا تھا ۔۔۔۔ تب نہیں جانتی تھی ۔۔۔ لیکن آج جانتی ہوں ۔۔
یہ وہی سال تھے ، جب پاکستان میں سرفروشوں اور مجاہدوں کی ایک فصل تیار کی گئی تھی ، جو ملک کے باوردی حکمران کے نفاذ اسلام کے نعروں کےعین مطابق تھی۔۔۔اور جسے بعد میں ان کےغیر منتخب اقتدار کو دوام دینے کے لئے ایک ’’صادق‘‘ اور ’’امین ‘‘ مجلس شوریٰ کی حمایت بھی ضرور حاصل ہوئی ہوگی۔
شاید آپ بھی ایسے ماہرین سے مل چکے ہوں ، جنہیں یقین ہے کہ پاکستان آج تک انہی سالوں کا بویا ہوا کاٹ رہا ہے ۔۔۔لیکن اگر آپ کو یہ موقعہ نہیں ملا ، تو بھی کیا آج آپ اسی فصل کے پکے ہوئے پھل قبائلی علاقوں اور خیبر پختون خواہ میں تباہ شدہ اسکولوں کے ملبے میں تلاش نہیں کر سکتے ۔۔؟
جو کام پہلے میڈیا کے سرکاری ادارے کرتے تھے ، وہی کام اب میڈیا کے ’’آزاد‘‘ ادارے بھی کر رہے ہیں ۔
ہر جگہ وہی سودا بیچاجاتا ہے ۔۔ جو بک سکتا ہے۔۔۔
نکتہ نظر وہی ہے ۔۔۔ جو مقبول ہے ۔۔
دانشور وہی ہے ، جو عوامی رائے کا ترجمان ہے۔۔۔۔۔۔
اور عوامی رائے کون ہے ؟۔۔۔۔۔سلطان راہی کی فلم ہے۔ ۔۔نور جہاں کا گانا ہے ۔۔شارجہ کپ کا چھکا ہے۔۔۔ علی ظفر کی چھنو ہے ۔۔۔۔ابرار الحق کی بلو ہے ۔۔۔۔۔۔ہنگامہ ۔۔۔۔شور و غل ۔۔۔نعرے ۔۔۔وعدے۔۔۔۔۔ اورپھر ایک لمبی ، پر اسرار خاموشی ۔
تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم سب ہی کو اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔۔ہم ، جو میڈیا کے اندر ہیں اور ہم ، جو میڈیا کے باہر ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ہم ہی ہیں جو کسی narrative کو مقبول بناتے ہیں ، اور ہم ہی ہیں ، جو اسے عام کرنے کے زمہ دار ہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ میڈیا کے مخالف سیاروں پر رہنے والے ، مصنوعی روشنیوں کے جنگل میں ایک ایسے شیر کا شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، جو کہیں موجود ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
بانو قدسیہ اپنی کتاب حاصل گھاٹ میں لکھتی ہیں ، سچائی کی تلاش ایک تنہا کر دینے والا سفر ہے۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہی کہتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کڑوی ،خاردار اور بے آرام کرنے والی سچائیاں کبھی مقبول عام narrative نہیں بن سکتیں ۔۔۔کبھی ہماری سہولت اور خواہش کے مطابق نہیں ہو سکتیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن کیا حرج ہے ۔۔۔ایک کوشش ہی سہی ۔۔۔۔۔ناکام ہی سہی ۔