سرد موسم آتے ہی، 'رینز برلن سرکس' کے منتظمین نے اپنے نیلے، سرخ اور پیلے رنگ کے ٹرکوں کو رنگ و روغن کا نیا لیپ دلوایا، جو اس کی صدی پرانی سالانہ روایت ہے۔ لیکن اب کے، نئے موسم بہار کے ارادے ہی کچھ اور تھے؟ کرونا وائرس کے آتے ہی یورپ بھر میں تفریحی صنعت پر تالے لگ گئے۔ اب یہ ٹرک کھڑے ہیں، جنھیں کوئی نہیں پوچھتا۔
اس مشہور خاندانی سرکس کی بنیاد 1842ء میں رکھی گئی، جس کا یورپ میں بڑا شہرہ رہا ہے۔
سرکس کی مالکن، سارینا رائنز نے بتایا ہے کہ ''ہم سب کے لیے صورت حال کسی بڑے المیے سے کم نہیں''۔
فی الوقت، سرکس اصطبل کے پیچھواڑے واقع میدان تک محدود ہے، جو نیدرلینڈز کا ایک شمالی قصبہ ہے۔ باقی دنیا کی طرح، سرکس کا عملہ، تربیت یافتہ کارکنان اور جانور سبھی بے چینی سے منتظر ہیں کہ بحران کب ختم ہوتا ہے اور حالات کب مثبت پلٹا کھاتے ہیں۔
اس جرمن سرکس کے بھانت بھانت کے جانوروں میں سائبیریا کے آٹھ عدد اونٹ، 15 گھوڑے اور لاما ریتیلے میدان میں کھڑے ہیں، جن کی خوراک مقامی لوگوں کے عطیات میں ملنے والی خصوصی غذائی رسد کی فراہمی سے پورا کی جا رہی ہے۔
سارینا نے بتایا کہ ''ہمارے پاس کھانے پینے کی اشیا ہیں، لیکن یہ رسد زیادہ عرصے کے لیے ناکافی ہو گی۔ اس وقت بھی ہم مشکل وقت کے لیے رکھی گئی رسد استعمال کر رہے ہیں۔ اب مخیر لوگ ہماری مدد کرنے لگے ہیں۔ لوگ چیزیں لاتے ہیں۔ یہ ایک مختلف تجربہ ہے''۔
'رینز فیملی' 18 ارکان پر مشتمل ہے، جو سبھی سرکس کے جانوروں کی نگہداشت پر مامور ہیں، جب کہ کرتب اور شغل دکھانے والے عملے کو پہلے ہی اپنے اپنے گھروں کو بھیج دیا گیا ہے۔
خاندان کے بچے اپنا وقت ٹرکوں اور جانوروں کے دمیان کھیلتے گزارتے ہیں، ساتھ ہی انھیں گھریلو نوعیت کی تعلیم دی جاتی ہے، جو نیدرلینڈز کے دیگر بچوں کی نسبت مختلف اور غیر مانوس طریقہ کار پر مبنی ہے۔ 'رائنز فیملی' بخوبی جانتی ہے کہ بچوں کو کس طرح تعلیم دینی ہے، چونکہ عام طور پر سرکس کسی ایک مقام پر ٹک کر نہیں رکتی۔ اس وجہ سے وہ اپنے بچوں کو باضابطہ اسکوں میں داخل نہیں کرا سکتے۔
ان نامساعد حالات میں فیملی کی زندگی رک سی گئی ہے، ساتھ ہی چونکہ شائقین گھروں تک پابند ہو کر رہ گئے ہیں، سرکس سے ہونے والا روزگار روٹھ چکا ہے۔
سارینا رائنز کا کہنا ہے کہ ''ہم اسی وقت خوش ہوتے ہیں جب ہمارا شو چلتا ہے۔ یہی ہماری زندگی ہے۔ ہمارا مقصد دوسروں کو تفریح اور خوشی فراہم کرنا ہے۔ اور یہی ہوتا ہے کہ عام حالات میں لوگ بغیر کسی روک ٹوک کے ہماری جانب کھچے کھچے آتے ہیں''۔