ڈھاکہ: سالانہ تبلیغی اجتماع میں ہزاروں افراد کی شرکت

بنگلہ دیش کے 'بسوا اجتماع' سے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کا حج کے بعد دوسرا سب سے بڑا مذہبی اجتماع ہوتا ہے۔ اجتماع میں بنگلہ دیش کے علاوہ دنیا کے متعدد ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی شریک ہوتے ہیں۔

اس بار کا اجتماع ڈھاکہ کے مضافات میں ٹونگی جامی کے مقام پر ہوا۔ دورانِ اجتماع لوگوں نے ایک ساتھ تمام نمازیں مقررہ وقت پر ادا کیں اور دیگر عبادات میں شریک ہوئے۔

شرکا نے اجتماع گاہ آنے کے لیے بسوں، ٹرینوں، کشتیوں اور دیگر گاڑیوں کا سہارا لیا۔ لیکن رش کے باعث لوگوں کو ٹرانسپورٹ کے حصول میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اجتماع گاہ تک آنے والی اکثر گاڑیوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔

اجتماع میں جانے کے لیے جو ٹرینیں چلائی گئیں، ان میں گنجائش سے زیادہ لوگ سوار تھے۔ ان گنت افراد نے چھتوں اور دروازوں پر لٹک کر سفر کیا۔ 

اجتماع کے شرکا ٹرینوں کی چھتوں پر سفر کرنے سے بھی نہیں گھبرائے۔ حتٰی کہ کچھ نوجوان ایک ٹرین سے چھلانگیں لگا کر مخالف سمت میں جانے والی دوسری ٹرینوں میں بھی سوار ہوئے۔

اجتماع کی اختتامی تقریب کو آخری مناجات کہا جاتا ہے جس کے دوران رقت آمیز دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد اس میں شریک ہوتی ہے اور اپنے اہلِ خانہ، عزیز و اقارب و دیگر کے لیے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔

مسافروں سے کھچا کھچ بھری ٹرین کے ذریعے اجتماع کے شرکا اپنے گھروں کو واپس جا رہے ہیں جب کہ کچھ افراد جگہ نہ ملنے کے باعث پیدل ہی سفر شروع کر رہے ہیں۔

اجتماع میں شرکت کی غرض سے آنے اور واپس جانے والے لوگوں نے بڑے پیمانے پر کشتیوں کا استعمال کیا۔ دوران اجتماع سڑکوں پر ٹریفک جام بھی رہا۔ 
 

اجتماع میں شرکا نے عارضی طور پر بنائی گئی پناہ گاہوں میں تین روز تک قیام کیا۔ 

تین روزہ اجتماع کے دوران شرکا کے رش کی وجہ سے ٹرینیں مکمل طور پر بھری رہیں۔ اکثر میں گنجائش سے زیادہ مسافر سفر کرتے رہے۔

مذہبی اجتماع میں مردوں کے ساتھ خواتین بھی بڑی تعداد میں شریک تھیں۔ انہوں نے بھی عبادات میں حصہ لیا۔

اجتماع کے اختتام پر مانگی جانے والی دعا میں شریک خواتین۔

اجتماع کے جن شرکا کو ٹرین کے اندر، چھتوں یا دروازوں پر لٹک کر سفر کرنے کا موقع نہیں ملا ان میں سے بیشتر نے ٹرین کے انجن کو بھی استعمال کیا۔ حالانکہ اس انداز میں سفر کرنا خطرے سے پر ہے اور  یہ کسی حادثے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔