بھارت میں مظاہروں کے بعد کسانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے برطانیہ میں مقیم بھارتی شہری بڑی تعداد میں اتوار کو وسطی لندن کے علاقے اولڈوچ میں واقع اپنے ملک کے سفارت خانے کے باہر جمع ہوئے اور ٹریفیلگر اسکوائر کے اطراف مارچ کیا۔
کاشت کاروں کا مؤقف ہے کہ نئے قوانین ان کے روزگار کے لیے خطرہ ہیں جب کہ نریندر مودی حکومت کا کہنا ہے کہ نئے قوانین کا مقصد پرانے طریقے کار کو تبدیل کرنا اور کسانوں کو اپنی اشیا فروخت کرنے کے لیے زیادہ مواقع فراہم کرنا ہے۔
برطانیہ میں بھارتی کمیونٹی بڑی تعداد میں آباد ہے اور بہت سے برطانوی شہری جن کا آبائی وطن بھارت ہے، وہ وہاں سے آنے والی خبروں اور حالات میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔
لندن مظاہرے میں سماجی فاصلے کے اصول کو مجموعی طور پر نظر انداز کیا گیا اور صرف چند مظاہرین ہی ماسک پہنے نظر آئے۔ پولیس نے کرونا وائرس کی احتیاط سے متعلق ہدایات کی خلاف ورزی کرنے پر 13 مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔
لندن میں ہونے والے احتجاج میں خواتین نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ انہوں نے ہاتھوں میں بینرز اٹھائے ہوئے تھے جن پر ان کے مطالبات درج تھے۔
بھارت میں حکومت اور کاشت کاروں کے درمیان ہفتے کو مذاکرات ہوئے جو بے نتیجہ ثابت ہوئے جس کے سبب ڈیڈ لاک تاحالبرقرار ہے جب کہ مذاکرات کا دوسرا دور بدھ کو ہوگا۔
لندن کے ٹریفلگر اسکوائر پر برطانیہ میں مقیم بھارتی شہریوں کی جانب سے بھارتی کاشت کاروں سے اظہار یکجتی کے طور پر ہونے والے مظاہرے کا ایک منظر۔ بھارت شہریوں نے احتجاج کے دوران بھارتی حکومت کے خلاف نعرے بھی لگائے۔
بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کا ہول سیل مارکیٹوں کو ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں اور کسان اپنی مرضی سے خریداروں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
حکومت اصلاحات واپس لینے کے لیے تیار نہیں جب کہ احتجاجی کاشت کار اپنے مطالبات سے پیچے ہٹنے کو تیار نہیں۔ یہی ڈیڈ لاک کی اصل وجہ ہے۔
کاشت کاروں نے دارالحکومت نئی دہلی کے نواحی علاقوں میں ڈیرے ڈالنے کے ساتھ ساتھ مختلف شاہراہیں بھی بلاک کی ہوئی ہیں۔
کاشت کاروں کو خدشہ ہے کہ نئے قوانین سے بھارت کی ریگو لیٹڈ مارکیٹ ختم ہو جائے گی۔ حکومت کسانوں سے گارنٹی پرائس پر چاول اور گندم خریدنا چھوڑ دے گی اور اُنہیں پرائیوٹ خریداروں سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔
احتجاجی کاشت کاروں کا مؤقف ہے کہ زراعت سے متعلق نئے قوانین اُن کے روزگار کے لیے خطرہ ہیں۔
احتجاجی کاشت کار بھارتی حکومت سے نئے قوانین واپس لینے اور حکومت کی لازمی خریداری برقرار رکھنے سمیت دیگر مطالبات کر رہے ہیں۔ وہ اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ وہ پچھلے کئی دنوں سے دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ حتیٰ کہ دھرنے کے دوران ہی کھانا کھاتے اور سوتے ہیں۔