بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کے نتیجے میں کم سے کم تین مشتبہ عسکریت پسند ہلاک ہو گئے ہیں۔
بھارتی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کا تعلق حزب المجاہدین سے ہے اور تینوں مقامی افراد تھے۔
حکام کے مطابق عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع پر سیکورٹی فورسز نے ضلع اننت ناگ کے گاؤں پازل پورہ میں کارروائی کی۔
اطلاعات کے مطابق جھڑپ کے دوران عسکریت پسندوں کے زیراستعمال مکان بھی تباہ ہو گیا۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پانچ اگست کو حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد اسے سب سے بڑی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔
غیر ریاستی مزدور ہلاک
ایک اور واقعے میں ضلع پلوامہ میں نامعلوم افراد نے بھارت کی ریاست چھتیس گڑھ سے تعلق رکھنے والے ایک مزدور کو ہلاک کر دیا۔ سیٹھی کمار نامی مزدور پلوامہ میں اینٹوں کے بھٹے میں کام کر رہا تھا۔ پولیس حکام شبہ ظاہر کر رہے ہیں کہ عسکریت پسندوں نے سیٹھی کمار کو ہلاک کیا۔
اس سے پہلے پیر کی رات ضلع شوپیاں میں مسلح افراد نے ایک ٹرک ڈرائیور شریف خان کو گولی مارکر ہلاک کردیا تھا۔ پولیس کے مطابق مقتول کا تعلق بھارتی ریاست راجستھان سے تھا اور وہ کشمیر سے سیب ایک بیرونی منڈی میں لے جانے کے لیے آیا تھا۔ پولیس نے الزام لگایا تھا کہ ٹرک ڈرائیور کو عسکریت پسسندوں نے ہلاک کیا۔
پانچ اگست کے اقدامات کے بعد بھارت کی حکومت نے جموں و کشمیر میں مواصلاتی رابطے ختم کر دیے تھے۔ جب کہ وادی میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد تھی۔ تاہم چند روز قبل حکومت نے موبائل فون سروس بحال کر دی تھی جب کہ انٹرنیٹ کی بندش بدستور جاری ہے۔
سرگرم سیاسی کارکن گرفتار
پولیس نے سرینگر سے بدھ کو ایک چھاپے کے دوران حریت پسند کارکن حیات احمد بٹ کو گرفتار کر لیا ہے۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ حیات بٹ عرف حیات ڈار سرینگر کے مختلف علاقوں میں حکومت مخالف احتجاج کرانے میں سرگرم تھے۔
پولیس کے مطابق حیات بٹ کو اس سے قبل بھی دو مرتبہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کی ریاستی حکومت کو ہدایت
بھارت کی سپریم کورٹ نے بدھ کو ریاستی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں احتجاج اور ہڑتالوں کے دوران دیے گئے احکامات اور گرفتاریوں کی تفصیلات عدالت میں پیش کرے۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے حکم دیا ہے کہ اگر حکومت اپنے احکامات کی کاپیاں عدالت میں پیش نہیں کر سکتی تو اسے حلف نامے کے ذریعے یہ تفصیلات نہ دینے کی وجہ بتانا ہو گی۔
خیال رہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ میں ایک صحافی کی طرف سے جموں و کشمیر میں نقل و حمل، مواصلاتی رابطوں اور صحافیوں پر عائد پابندیوں کو چیلنج کیا گیا تھا۔ درخواست گزار نے استدعا کی تھی کہ حکومت سے پوچھا جائے کہ کن حکم ناموں کے بعد یہ پابندیاں عائد کی گئیں تھی۔
جموں و کشمیر حکومت کے وکیل نے عدالت سے جواب داخل کرانے کے لکیے مزید وقت مانگا اور کہا کہ موبائل فون سروس کی بحالی سے صورتِ حال میں بہتری آ رہی ہے۔