پاکستان کے شہر لاہور میں واقع گلابی باغ اور مقبرہ دائی انگہ ایک خاص تاریخ رکھتے ہیں۔
گلابی باغ سے چند قدم شمال کی طرف دایہ انگہ کی قبر ہے جو مغل بادشاہ شاہ جہاں کی دایہ تھیں۔
دائی انگہ کا اصل نام زیب النسا تھا اور مغل بادشاہ شاہ جہاں کے عہد میں ان کا بڑا عروج رہا ہے۔
موجودہ دور میں باغ اور مقبرہ دو الگ الگ اداروں کی تحویل میں ہیں یعنی باغ کی تزئین و آرائش پی ایچ اے کی ذمہ داری ہے تو مقبرے کی عمارت کی مرمت و بحالی محکمہ آثار قدیمہ کے سُپرد ہے۔
لاہور ریلوے اسٹیشن کے پاس دائی انگہ کے نام سے ہی ایک مسجد بھی موجود ہے۔
مقبرے کی مربع نما بارہ دری کے اندر دو قبریں موجود ہیں جن میں سے ایک دائی انگہ کی ہے جب کہ دوسری کے بارے لاہور کی تاریخ خاموش ہے۔
تاریخ دانوں کے مطابق کسی زمانے میں قبریں سنگ مرمر سے تیار کی گئی تھیں لیکن اب صرف قبروں کا نشان ہی باقی ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ مٹے نقوش پر وقتاً فوقتاً نئے رنگ کراتا رہتا ہے۔
لاہور نقوش کے مطابق گلابی باغ اور مقبرہ دائی انگہ کا احاطہ خاصا وسیع تھا لیکن گزرتے وقت کے ساتھ تجاوزات کے باعث تنگ ہو گیا ہے۔
بعض گھروں کے دروازے تاریخی عمارت اور باغ کی جانب بھی بنائے گئے ہیں جو انتظامیہ کے مطابق ہمیشہ بند ہی رہتے ہیں۔
مقبرہ دائی انگہ عام عوام کے لیے بند ہے۔
اکثر فوٹوگرافی کے دلدادہ افراد بھولے بھٹکے یہاں پہنچ کر اس تاریخی مقام کی تصویریں بناتے ہیں۔
سن 1656 میں بنی عمارت پر کانسی کاری کا کام اور نقش نگاری اب بھی عمارت کے بعض حصوں پر موجود ہے۔