ایک 12 سالہ طالبہ نے الرجیز یا حساسیت کا ممکنہ علاج تلاش کر لیا ہے، جس کا کہنا ہے کہ الرجی جیسی بیماری کے قبل از وقت علاج کے لیے دوا کےطور پر گولڈ پارٹیکلز کا استعمال زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
امریکی ریاست میری لینڈ سے تعلق رکھنے والی ایرس گپتا کے مطابق اس طریقہ کار کے ذریعے گولڈ نینو پارٹیکلز یا سونا کے غیر معمولی چھوٹے ذرات کو انجیکشن یا سانس کے ذریعے متاثرہ مریضوں کےجسم میں براہ راست پہنچایا جاسکتا ہے۔
بزنس انسائیڈر کے مطابق چھٹی جماعت کی طالبہ ایرس گپتا ایک مڈل اسکول کے سائنس مقابلے 'ٹین ڈسکوری ایجوکیشن تھری ایم ینگ سائنٹسٹ چیلنج' کی فائنلسٹ میں سے ایک ہیں، جنھوں نے مقابلے میں الرجیز کے علاج اور نینو پارٹیکلز پر اپنی تحقیقات پیش کی تھیں۔
الرجیز بیرونی عناصر وائرس ،بیکٹریا وغیرہ کے لیے ہمارے مدافعتی نظام کا ردعمل ہے، جو لوگوں کے لیے نقصان دہ نہیں ہے، لیکن یہ کئی دائمی امراض کا سبب بھی ہے۔
سونے کی حیاتی مطابقت کو صدیوں سے طب میں استعمال کیا گیا ہے۔ خاص طور پر دندان سازی میں اس کا استعمال عام ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں پتا چلا ہے کہ بیماریوں کے علاج میں بھی سونے کے مرکبات کا استعمال اہم ہے۔
ایرس گپتا کی نینو پارٹیکلز سائنسی تحقیق
گپتا کے مطابق عام طور پر لوگ الرجیز کی علامات کا علاج اینٹی ہسٹا مینز ادویات مثلاً بینا ڈرل اور کلیرٹن کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ ادویات ہسٹامینز مرکبات کو روکتی ہیں، جو ہمارا جسم چوٹ لگ جانے یا الرجیز کا سبب بننے والا مادہ الرجن کے جواب میں ریلیز کرتا ہے۔
تاہم ایرس گپتا الرجیز جیسے پریشان کن مسائل کے لیے موجودہ طریقہ علاج کو تبدیل کرنا چاہتی تھیں۔
گپتا نے ایک ایسا طریقہ علاج ڈھونڈنے کی کوشش کی، جس سے الرجیز شروع ہونے سے پہلے اس کا علاج کرنا ممکن ہو سکے ۔
اس مقصد کے لیے اس نے سونے کے مرکبات نینو پارٹیکلز پر تحقیقات شروع کی تو گپتا کو پتا چلا کہ نینو پارٹیکلز مدافعتی نظام پرحملہ کرنے والے الرجن کو جسم کے اینٹی باڈیز امیونو گلوبلین ای کے ساتھ چپکنے سے روک سکتا ہے۔
امیونوگلوبلین ای خون کا ایک حصہ ہے، جو الرجیز کےخلاف لڑنے کا ذمہ دار ہے۔ اگرچہ یہ ہمارے جسم میں انتہائی کم مقدار میں ہے لیکن، الرجیز کی بیماریوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور جب یہ الرجن کےساتھ چپک جاتا ہے تو جسم میں مستول خلیات جیسے ہسٹا مینز کے اخراج کو تحریک ملتی ہے جس سے سوزش یا الرجک ردعمل شروع ہوتا ہے۔
انھوں نے اپنے سائنسی منصوبے میں بتایا کہ نینو پارٹیکلز نسبتاً سستا علاج ہے۔جسے الرجیز کے موسم کے آغاز میں متاثرہ مریضوں کے جسم میں انجیکشن یا انہیلر کے ذریعے داخل کیا جاسکتا ہے اور اس طرح امیونو گلوبلین ای کا ردعمل کو شروع ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔
تاہم اس سے پہلے کہ وہ اپنے خیال کو عملی جامہ پہناتی اسے ضرورت تھی کہ وہ استعمال سے پہلے نینو ذرات کے صحیح سائز کا پتا لگائے اور اس کی تحقیقات سے جو نتیجہ سامنے آیا اس سے پتا چلا کہ سب سے بہترین نتائج 20 نینو میٹرز سائز سے حاصل ہوئے تھے۔
ایرس گپتا نے ویڈیو پراجیکٹ کی وضاحت میں کہا کہ 20 نینو میٹر سائز کے نینو ذرات امینو گلوبلین کے ساتھ مماثلت رکھتا ہے اور مدافعتی نظام پر حملہ کرنے والے الرجن کے ردعمل میں امینو گلوبلین کو فعال ہونے سے روکتا ہے۔