برطانوی یونیورسٹیوں سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرنے والے غیر ملکی طلبہ اپنے روشن مستقبل کے حوالے سے بہت پرعزم ہوتے ہیں۔ غیرملکی طالب علموں کی اکثریت کے لیے ڈگری مکمل کرنے کا مطلب وطن واپسی ہوتا ہے لیکن بہت سے طالب علم ایسے بھی ہوتے ہیں جو برطانیہ میں اپنا مستقبل تلاش کرنا چاہتے ہیں۔
اگرچہ 2012 تک گریجویشن کے بعد غیر ملکی طلبہ کو مزید دو سال کا وقت دیا جاتا تھا لیکن پوسٹ اسٹڈی ورک ویز ے کے خاتمے کے بعد اب طالب علموں کے پاس ملازمت تلاش کرنے کے لیے اور اپنے اسٹوڈنٹ ویزا کو ورک ویزے میں تبدیل کرنے کے لیے چار ماہ کا قلیل وقت ہوتا ہے۔
روزنامہ انڈیپینڈنٹ کے مطابق گذشتہ دنوں برطانوی وزیر داخلہ تھریسا مئے کی جانب سے ایک ایسا منصوبہ پیش کیا گیا جس میں انھوں نے غیر یورپی طالب علموں کو گریجویش مکمل کرنے کے بعد وطن واپس بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق غیر ملکی طلبہ برطانیہ میں ملازمت تلاش کر سکتے ہیں لیکن ملازمت کی درخواست اپنے وطن واپس جانے کے بعد دیں سکیں گے اور ورک ویزے کے ساتھ دوبارہ برطانیہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔
اس منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے ناقدین کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے امیگریشن کے اہداف اس کی اقتصادی کامیابی کی کہانی کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں جبکہ سالانہ ایک لاکھ تارکین وطن کے اہداف غیر ملکی طالب علموں کی تعداد کو کم کیے بغیر پورا نہیں کیے جاسکتے۔
علاوہ ازیں یونیورسٹیوں کی فنڈنگ اور مقامی طالب علموں کی فیس غیر ملکی طلبہ کی تعداد کے مفروضو ں پر مبنی ہوتی ہے لہذا تارکین وطن کی نقل مکانی کے اہداف پورے کرنے کی وجہ سے مقامی طالب علموں کو فیس میں اضافے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اگرچہ قدامت پسند جماعت ٹوری کی رہنما تھریسا مئے کے اس منصوبے کو فی الحال ٹوری کے قائدین کی جانب سے نامنظور کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ٹوری کے رہنما سر جیمز ڈائیسن کا کہنا ہے کہ برطانوی یونیورسٹیاں مالی طور پر بڑی حد تک غیر ملکی طلبہ پر انحصار کرتی ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کی پالیسی ہے کہ غیر ملکی طلبہ گریجویشن کے بعد یہاں قیام کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ گریجوٹ سطح کی ملازمت کریں جس میں ان کی سالانہ آمدنی 24,000 پونڈ ہونی چاہیئے۔
ہائر ایجوکیشن شماریاتی ادارے کی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ پوسٹ گریجویٹ کے بھارتی اور پاکستانی طلبہ کی تعداد گذشتہ سولہ برسوں میں پہلی بار کم ہوئی ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا کے دیگر میں ملکوں میں غیر ملکی طالب علموں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ 2010 سے 2013 تک برطانوی یونیورسٹیوں میں داخلہ حاصل کرنے والے بھارتی طلبہ کی تعداد میں 49 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ 2013 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی طالب علموں کی تعداد میں مجموعی طور پر 19 فیصد کمی ہوئی ہے۔
دریں اثناء، 2012 میں 120,000 طالب علم برطانیہ میں اسٹوڈنٹ ویزے پر داخل ہوئے تھے جن میں سے تقریباً تمام طالب علم رضا کارانہ طور پر واطن واپس لوٹ چکے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیاں برطانوی معیشت کے لیے عظیم اثاثہ ہیں۔ روزنامہ ایف ٹی کے مطابق ایک گذشتہ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ گذشتہ پانچ برسوں میں یونیورسٹیوں کی براہ راست شراکت سے مجموعی پیداوار میں ایک چوتھائی اضافہ ہوا ہے جس کا ایک اہم حصہ غیر ملکی طلبہ سے حاصل ہوتا ہے۔
ڈپارٹمنٹ فار بزنس اینڈ اسکلز کی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ غیر ملکی طلبہ سالانہ برطانوی معیشت میں 8 ارب پونڈ کا اضافہ کرتے ہیں جبکہ توقع ظاہر کی گئی تھی کہ 2025 تک یہ اعداد و شمار بڑھ کر 16.8 تک پہنچ سکتے ہیں۔
برطانیہ میں مقیم پاکستانی ماہر قانون مختار احمد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی طرف سے اگر غیر ملکی طالب علموں کو گریجویشن مکمل کرنے کے بعد وطن واپس جانے پر مجبور کیا جاتا ہے تو یہ ان کے ساتھ سراسر ناانصافی ہو گی کیونکہ برطانیہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بہت سے قابل طالب علموں کو برطانوی فرموں کی جانب سے پہلے سے پر کشش ملازمتوں کی پیشکش ہوتی ہیں جبکہ بہت سے با صلاحیت نوجوان یہاں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمت بھی کرتے ہیں جنھیں برطانیہ میں ملازمت کا تجربہ حاصل ہو جاتا ہے۔
لہذا ایسے باصلاحیت نوجوانوں کو وطن بھیجنا برطانوی معیشت کے لیے اچھا نہیں ہو سکتا ہے تو دوسری طرف وطن واپسی پر انھیں اچھی ملازمتیں مل سکتی ہیں لیکن ان کے لیے وہاں کام کا ماحول یہاں سے نسبتاً مخلتلف ہوتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹیوں میں غیر ملکی طلبہ پر زبان اور حاضری کی پابندیاں عائد کی گی ہیں ویسے بھی حکومت کی طرف سے بوگس کالجز بند کرنے کے بعد غیر ملکی طلبہ کو اسٹوڈنٹ ویزا حاصل کرنے میں دشواریوں کا سامنا ہے اور یونیورسٹیوں کی بھاری فیس ادا کرنے والے طالب علموں کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے جن میں بھارتی اور پاکستانی طلبہ کی تعداد قابل ذکر ہے جبکہ غیر ملکی طلبہ کو مقامی طالب علموں کے مقابلے میں ایک ہی کورس کے لیے ایک تہائی سے زیادہ فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امیگریشن کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے غیر یورپی طالب علم ایک آسان ہدف ہیں جنھیں یورپی یونین فریڈم آف لیبر کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔