یوکرین: اہم بندرگاہ پر باغیوں کی یلغار، 100سے زیادہ افراد ہلاک

ماریپول

راکیٹ حملے کے جواب میں، یوکرین کے صدر پیترو پوروشنکو نے عہد کیا کہ یوکرین کی سرزمین کا دفاع کیا جائے گا، ساتھ ہی اُنھوں نے اپنی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے

روس نواز باغیوں نے یوکرین کی کلیدی بندرگاہ کے شہر، ماریپول پر شدید حملہ کیا ہے، جس اشتعال انگیزی کے اقدام کے سلسلے میں یورپی یونین کی خارجہ امور کی پالیسی سربراہ نے انتباہ جاری کیا ہے کہ اس سے یورپی یونین اور روس کے تعلقات میں ’شدید بگاڑ آئے گا‘۔

یوکرین کے حکام کا کہنا ہے کہ ہفتے کو ماریپول کے ایک رہائشی علاقے پر لگنے والے راکیٹ کے نتیجے میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہوئے۔

اس گولہ باری کا نشانہ ایک مارکیٹ اور رہائشی عمارات بنیں، جس کے نتیجے میں 80 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔

اس حملے سے چند ہی گھنٹے قبل، ڈونیسک کے علاقے میں ایک باغی راہنما نے بتایا کہ یوکرین کے ساتھ کوئی مزید امن بات چیت نہیں ہوگی۔

اس راکیٹ حملے کے جواب میں، یوکرین کے صدر پیترو پوروشنکو نے عہد کیا کہ یوکرین کی سرزمین کا دفاع کیا جائے گا، ساتھ ہی اُنھوں نے اپنی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔

دریں اثنا، یورپی یونین کی پالیسی سربراہ، فیڈریکا مغرینی نے روس پر زور دیا ہے کہ وہ باغیوں کو حربی اور مالی مدد فراہم کرنا بند کرے اور اس حملے کو ختم کرانے کے سلسلے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔

ماریپول کا محل و قوع اہم حکمت عملی کا باعث ہے۔ یہ علاقہ روسی سرزمین اور روس کی جانب سے ضم کیے گئے جزیرہ نما کرائیمیا بحیرہٴازوف کے بیچ واقع ہے۔

روس کی سرحد کے قریب، ڈونیسک اور لہانسک کا کلیدی علاقہ علیحدگی پسندوں کے کنٹرول میں ہے، جب کہ نو ماہ قبل یوکرین کی حکمرانی کے خلاف بغاوت کا آغاز ہوا۔

جمعے کو، ڈونیسک کےخودساختہ عوامی جمہوریہ کے سربراہ، الیگزینڈر زخارچینکو، جنھیں روس کی حمایت حاصل ہے، کہا ہے کہ جب تک اُن کی افواج ڈونیسک کے خطے کی سرحدوں تک نہیں پہنچتیں، وہ سرکاری فوجوں پر حملہ جاری رکھیں گی۔

اُنھوں نے کہا کہ جمعرات کو ایئرپورٹ پر قبضے کی طویل لڑائی کے بعد، اب اُن کے جنگجو یوکرین کی لڑاکا افواج سے لڑ رہے ہیں۔

روسی میڈیا نے زخارشنکو کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اُنھیں چار فریقی امن مذاکرات کی مزید ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اُنھوں نے انٹرفیکس نیوز ایجنسی کو بتایا کہ منسک امن بات چیت کا ایجنڈا، جس پر گذشتہ برس اتفاق ہوا تھا، ’ایک غلطی تھی‘ جو ’ہم پھر نہیں دہرائیں گے‘۔

جمعے کے روز ماسکو میں، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے لڑائی میں حالیہ شدت کا ذمہ دار یوکرین کو قرار دیا۔ اُنھوں نے یوکرین پر الزام لگایا کہ اُس نے حملے میں بھاری دہانے والے ہتھیار اور فضائی کارروائی کا استعمال کیا ہے، جس کے نتیجے میں، درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے ہیں، جن میں خواتین، بچے اور عمر رسیدہ لوگ شامل ہیں۔

واشنگٹن میں، امریکی محکمہٴخارجہ کی خاتون ترجمان، جین ساکی نے کہا ہے کہ مشرقی یوکرین میں بڑھتے ہوئے تشدد اور قتل عام پر امریکہ کو شدید تشویش ہے، جس کے لیے، اُن کا کہنا تھا کہ اس کا باعث روسی علیحدگی پسندوں کی طرف سے جنگ بندی کی حدود کی خلاف ورزی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ روس کے حامی علیحدگی پسند دسمبر کے آغاز سے اب تک 1000حملے کرچکے ہیں۔