نیا تعلیمی سال: کتابیں غائب، والدین پریشان، بچے فکرمند

جی ہاں۔۔دکانداروں کے پاس پوری بات سننے کا بھی وقت نہیں، بچوں کو کتابوں کی تلاش میں مارے مارے پھرنا پڑ رہا ہے۔ دکان ملتی ہے تو ’کتاب ختم ہوگئی ۔۔کل آئے گی ۔۔۔یا فلاں دن آنا‘ کا بہانا کیا جاتا ہے، اور یوں والدین اور طالبہ کے یہاں کے چکر پہ چکر لگتے رہتے ہیں

سندھ میں نیا تعلیمی سال ابھی پوری طرح شروع بھی نہیں ہوا کہ پہلی کلاس سے آٹھویں کلاس تک کے بچوں کے والدین کو نئی پریشانیوں نے آگھیرا ہے۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں شارٹ ہوگئی ہیں جس کی وجہ سے والدین کو نہ صرف اردو بازار کے چکر لگانا پڑرہے ہیں بلکہ دکانوں پر لگی لمبی لمبی لائنوں میں بھی کھڑا ہونا پڑرہا ہے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے نے منگل کو ایم اے جناح روڈ پر ریڈیو پاکستان کی عمارت سے متصل اردو بازار کا مشاہدہ کیا تو انگنت والدین پریشان اور درجنوں بچے فکر مند نظر آئے۔ زیادہ تر بچوں کو کورس کی کتابوں کی تلاش میں مارے مارے پھرنا پڑرہا تھا۔

لیاقت آباد سے آنے والے ایک شہری معین الدین نے بتایا ’میں اپنے بچوں کے لئے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی شائع کردہ آٹھویں کلاس کی فزکس اور مطالعہ پاکستان کی کتابیں لینے آیا تھا مگر سوائے ایک دکان کے کہیں بھی یہ کتابیں دستیاب نہیں، جبکہ اس دکان پر بھی بے تحاشہ رش ہے۔ یہاں تک کہ دکان دار کے پاس پوری بات سننے کا بھی وقت نہیں۔ آج ناکام لوٹ رہا ہوں کیوں کہ اتنی بھیڑ میں میرا نمبر رات تک آنا بھی مشکل ہے ، کل پھر ٹرائی کروں گا۔‘

لائن میں لگی ایک خاتون نے معین صاحب کی بات سن کر جواب دیا، ’کل کس نے دیکھی ہے۔ کتابیں پہلے ہی شارٹ ہیں، آج ہی ختم ہوگئیں تو کل کیا ملے گا۔۔‘

ایک دکاندار عبدالحمید نے کافی اصرار کے بعد اس مسئلے پر اپنا نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا، ’سرکاری بورڈ کی پرنٹ کی ہوئی کتابوں کی قلت ہر سال کا مسئلہ ہے۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ ہر سال بورڈ والوں سے شکایت کرتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں سرکاری معاملہ ہے ۔۔۔کچھ بھی اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے۔ بورڈ والے اپنی مجبوریاں گنوادیتے ہیں۔‘

ایک اور شہری نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے اپنا خیال بیان کیا کہ ’بورڈ کی کتابیں سستی ہوتی ہیں اسکول میں کتابیں سپلائی کرنے والے مہنگی کتابیں تو لمبے چوڑے نفع پر کتابیں اسکول میں ہی فراہم کردیتے ہیں۔ لیکن، سستی کتابوں کے لئے ماں باپ کو اردو بازار کی راہ دکھا دی جاتی ہے۔ یہاں آکر والدین کو پتہ چلتا ہے کہ کتابیں خریدنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔انہیں پہلے کتابوں کی تلاش میں دکان دکان پھرنا پڑتا ہے ۔ دکان ملتی ہے تو ’ختم ہوگئی ۔۔کل آئے گی ۔۔۔یا فلاں دن آنا“ کا نعرہ لگادیا جاتا ہے اور یوں یہاں کے چکر پہ چکر لگتے رہتے ہیں‘۔

منگل کے روز بھی اردو بازار میں بہت رش رہا۔ موٹرسائیکلوں، رکشا، کاروں اور چنگ چی سے وہاں پہنچنے والوں کے سبب بری طرح ٹریفک جام رہا۔ نہ تو کان پڑی آواز سنائی دیتی تھی اور نہ ہی وہاں آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ آیا یا جایا جاسکتا تھا۔

نئی پرانی کتابوں، کاپیوں اور اسٹیشنری کی دکانوں کے علاوہ بیگز کی دکانوں پر بھی بلا کا رش تھا۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے علاوہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابوں کی قلت دیکھی گئی۔ حتیٰ کہ میڈیکل کی بکس کا بھی یہی حال تھا۔

اردو بازار کے دورے میں ایک اور دلچسپ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ سرکاری کتابوں کے سوا میڈیکل، سائنس، اکاوٴنٹس اور دیگر مضامین کی جو غیر ملکی کتابیں شارٹ ہیں وہ پوری کی پوری فوٹو اسٹیٹ کی شکل میں سرعام بک رہی رہیں اور وہ بھی منہ مانگے داموں۔

فوٹو اسٹیٹس بکس بیچنے والے دکانداروں کا کہنا ہے کہ’اس میں کوئی برائی نہیں۔۔کم ازکم اصل کتاب نہ ملنے سے فوٹو اسٹیٹ کتابیں یہ کمی پوری تو کر دیتی ہیں۔ ۔۔ورنہ بے شمار بچے تو سارے سال سرکاری کتابوں کے چھپنے اور مارکیٹ میں آنے کے انتظار، انتظار میں ہی رہ جاتے ہیں۔‘