مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے، لیکن اُن کی غزلیات کی تعداد ستر سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اُن کا شمار ترقی پسند شعراٴ میں ہوتا ہے۔
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک بھی ستم کی سیاہ رات چلے۔۔۔
مجروح کا اصل نام اسرارالحسن خان تھا۔ وہ یکم اکتوبرسنہ1919 کو اتر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد سب انسپکٹر تھے۔ مجروح نے صرف ساتویں جماعت تک اسکول میں پڑھا پھر عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی اور سات سال کا کورس پورا کیا۔ درس نظامی کا کورس مکمل کرنے کے بعد عالم بنے، جس کے بعد لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج میں تعلیم حاصل کی اورحکیم بن گئے۔
ایک دفعہ سلطان پور میں مشاعرے میں غزل پڑھی جسے سامعین نے بے حد سراہا۔ اس طرح، مجروح نے حکمت چھوڑ کر شاعری کےذریعے معاشرے کی نبض پہ ہاتھ رکھنے کا سوچا اور جلد ہی جگر مرادآبادی کے بہترین دوست بن گئے۔
اب کارگہہ دہر میں لگتا ہے بہت دل
اے دوست کہیں یہ بھی ترا غم تو نہیں ہے
1945ء میں مجروح ایک مشاعرے میں شرکت کی غرض سے ممبی گئے، یہاں ان کی شاعری کی بہت دھوم مچی۔ سامعین ہی میں پروڈیوسر اے۔ آر۔ کاردار بھی تھے۔ وہ مجروح کو نوشاد کے پاس لے گئے۔ نوشاد نے مجروح کو ایک دھن سنائی اور اس پر ایک گانا لکھنے کو کہا۔ مجروح نے اس دھن پر یہ گانا لکھا:
جب اس نے گیسو بکھرائے
نوشاد کو یہ گیت بہت پسند آیا اور انہوں نے مجروح کے ساتھ فلم شاہ جہاں کے گیت لکھنے کا کنٹریکٹ کرلیا۔ اس فلم کے گیت بے حد پسند کیے گئے۔ بعض ناقدین کے بقول مجروح ادبی شاعری پر توجہ دینے کے بجائے فلمی دنیا کی نظر ہو گئے۔
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو ، ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
چاک کیے ہیں ہم نے عزیزو، چا رگریباں تم سے زیادہ
چاک جگر محتاج رفو ہے، آج تو دامن صرف لہو ہے
اک موسم تھا ، ہم کو رہا ہے شوق بہاراں تم سے زیادہ
ان کے فلمی نغموں کی مقبولیت آج بھی اسی طرح ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے فلم شاہ جہاں کے گیت لکھے جن کی ہر طرف دھوم مچ گئ ان کا یہ گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے:
کتنا نازک ہے دل یہ نہ جانا ۔۔۔ ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ
مجروح کا گیت:جب دل ہی ٹوٹ گیا۔۔۔ ۔بے حد مقبول ہوا۔ اس گیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کے۔ ایل۔ سہگل کے جنازے کے ساتھ بجایا گیا۔
سہگل کی آواز میں مجروح کے گیت اس قدرمقبول ہوئےکہ گلی کوچوں میں گونجنے لگے اور مجروح کی شہرت کو گویا پر لگ گئے۔ انہیں پے درپے فلمیں ملنے لگیں، ان کا فلمی گیت لکھنے کا اپنا ایک خاص انداز تھا فلمی گیتوں میں بھی مجروح نے ادبی تقاضوں کو برقرار رکھا، انہیں فلمی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز دادا صاحب پھالکے سے نوازا گیا۔
ان کے فلمی گیتوں میں خیالات کی نازکی سے بخوبی اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسے تخلیق کار کے قلم سے وجود میں آئے ہیں جوغزلیہ شاعری کا گہرا ادراک رکھتا ہے اور جس نے تمام رموز سامنے رکھ کر اپنے تجربات اشعار کے قالب میں ڈھالے ہیں۔
مجروح نے پچاس سال فلمی دنیا کو دیئے۔ انھوں نے300 سے بھی زائد فلموں میں ہزاروں گیت لکھے۔ ان کے سینکڑوں نغمے آج بھی ان کے شیدائیوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔
اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول۔۔۔ ہمیں تم سے پیار کتنا۔۔۔ ان کے چند مشہور گیتوں میں سے ہیں۔
اردو غزل کا یہ البیلا شاعر 24 مئی 2000 کو اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔
جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول۔۔۔
مجروح کو یہ زعم تو بہرحال تھا،
دہر میں مجروح کوئی جاوداں مضمون کہاں
میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: