امریکی اخبارات سے: بے روزگاروں سے امتیازی سلوک

وہائٹ ہاؤس کے ایک اقتصادی مشیر کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ کمپنیاں ملازمت دینے کی شرائط میں غیرارادی طور پر اکثر ایسی باتوں کا اضافہ کر دیتی ہیں، جن کا طویل مدّت تک بے روزگار رہنا اُن کے مفادات کے خلاف جاتا ہے
انٹرنیٹ اخبار ’ہفنگٹن پوسٹ‘ کہتا ہے کہ امریکی کاروباری ادارے وہائٹ ہاؤس کے اس عہد نامے پر دستخط کر رہے ہیں کہ وُہ ایسے لوگوں کے خلاف جو طویل عرصے سے روزگار سے محروم رہے ہوں، امتیازی سلوک روا نہیں رکھیں۔

اخبار کہتا ہے کہ یہ کام صدر اوبامہ کے اس وعدے کے مطابق ہو رہا ہے کہ وہ کانگریس کے تعاون کے بغیر ہی قومی معیشت کو آگے بڑھانے کی غرض سے، اپنے عُہدے کے اختیارات کا استعمال کریں گے۔ اور اگرچہ بے روزگاری کی شرح میں کمی ہو رہی ہے، پھر بھی اس وقت ملک میں تقریباً 40 لاکھ افراد ایسے ہیں جو مدّت سے بےروزگار ہیں۔

اور اس کی ایک جُزوی وجہ یہ کہ کمپنیاں ایسے افراد کو ملازمت دینے سے گُریز کرتی ہیں، جن کے کاغذات کے مطابق، وہ بے روزگاری کا شکار رہے ہوں۔ وہائٹ ہاؤس کے ایک اقتصادی مشیر کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ کمپنیاں ملازمت دینے کی شرائط میں غیر ارادی طور پر اکثر ایسی باتوں کا اضافہ کر دیتی ہیں، جن کا طویل مدّت تک بے روزگار رہنا اُن کے مفادات کے خلاف جاتا ہے۔


اس لئے اب وہائٹ ہاؤس نے کمپنیوں کو بہترین طرز عمل کے ایک عہد پر دستخط کرنے کی دعوت دی ہے کہ وُہ خالی اسامیوں کے بارے میں ایسے اشتہارات دینے سے پرہیز کریں جو بے روزگاروں کے مفادات کے خلاف جاتے ہوں۔ اس کے علاوہ، اُنہیں ایک دوسرے کے ساتھ اس بات پر صلاح مشورہ کرنا چاہئے، تاکہ اُن لوگوں کو ملازمتیں فراہم کی جائیں۔ جو طویل عرصوں تک بے روزگاری کا شکار رہے ہوں۔ اب تک 300 سے زیادہ کمپنیاں اس عہد نامے پر دستخط کر چکی ہیں، جن میں وال مارٹ اور میکڈانلڈ جیسی امریکہ کی سب سے بڑی کمپنیاں شامل ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ اس اقدام سے غالباً زیادہ عرصے سے بے روزگاری کا شکار رہنے والے لوگوں کا مسئلہ نہیں سُلجھ سکے گا۔ ایسے میں جب چھ ماہ سے زیادہ عرصے کی بےروز گاری کی انشورنس ختم ہوجانے سے، 13 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ کانگریس اس سلسلے میں کُچھ نہیں کر رہی۔

’کرسچن سائینس مانٹر‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ تین سال قبل عرب ملکوں میں موسم بہار کے نام سے جس تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ وُہ تقریباً ہر ملک میں زوال پذیر ہو چُکی ہے۔ شام کی خانہ جنگی، مصر میں فوجی حکمرانوں کی واپسی، لبیا میں افراتفری کا عالم، اور یمن میں جنگ کا زور، ان ساری باتوں نے ایک ایسے جمود کے شکار عرب کلچر کے تصوّر کو تقویت بخشی ہے، جو انسانی آدرشوں کے حصول کی طرف بڑھنے سے عاری ہےِ۔ البتہ، اخبار کی نظر میں اس میں جو واحد استثنیٰ ہے،۔ وُہ ہے تیونس جہاں سب سے پہلے جمہوریت کی جوت جگائی گئ تھی۔ اور جہاں ایک سال کی بڑھتی ہوئی کشیدگیوں اور دو سیاسی قتلوں کے بعد، ایک اور انقلاب کی مدد سے ابتدائی انقلاب کو بچا لیا گیا ہے۔

حکمران اسلام پسند پارٹی نے ملک میں وسیع پیمانے کی بے چینی کے پس منظر میں اقتدار چھوڑ دیا ہے، اور پارلیمنٹ نے تقریباً اتفاق رائے سے ایک ایسا آئین منظور کرلیا ہے، جس میں تمام حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ عالمی لیڈروں نے جو انسانی ارتقاٴ ناگزیر سمجھتے ہیں، اس کا خیرمقدم کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل بن کی مون نے تیونس کے اس کارنامے کو ایک تاریخی سنگ میل اور اصلاحات کی متلاشی اقوام کے لئے ایک نمونےسے تعبیر کیا ہے۔ اور، اخبار کہتا ہے کہ دنیائے عرب کے موسم بہار کی یہ تجدید نہ صرف اس خطے کی جمہوریت کے لئے امید کی کرن ہے، بلکہ تمام لوگوں کے لئے ترقّی کا آدرش بھی۔


اخبار ’واشنگٹن ٹائمز‘ کی رپورٹ ہے کہ امریکی نمائیندگان میں ری پبلکن ارکان چاہتے ہیں کہ ملک میں اس وقت جو تارکین وطن غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، اُن کو شہریت تو نہیں دینی چاہئے۔ البتہ، اُنہیں ایک قانونی حیثیت ضرور ملنی چاہئے۔

اخبار کہتا ہے کہ ان ارکان میں ایک مختصر سی دستاویز تقسیم کی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ نوجوان غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت کا موقع ملنا چاہئے۔ ری پبلکن لیڈروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مستقبل میں غیرقانونی تارکین وطن، قطعاً برداشت نہ کیا جائے۔ البتہ، وہ اس نظام کو اس طرح ئے سرے سے ترتیب دینے کے حق میں ہیں، تاکہ کاروباری طبقہ قانونی طریقوں سے غیرملکی کارندوں کی خدمات حاصل کر سکیں۔