شام کا موضوع یوں تو ایجنڈے میں شامل نہیں ہے، لیکن اِس دوروزہ اجلاس سے باہر جو تبادلہٴ خیال ہوگا اس میں یہ موضوع سر فہرست ہوگا
عالمی لیڈر جِن کا تعلّق ’جی 20‘ نامی تنظیم کے ساتھ ہے، روس کے شہر سینٹ پیڑرس برگ میں جمع ہیں جہاں ٹیکسوں سے متعلق معاہدوں، بنک کاری کے شعبے میں اصلاحات اور عالمی معیشت پر مذاکرات ہونگے۔ لیکن، جیسا کہ ’یو ایس اے ٹوڈے‘ اخبار نے کہا ہے، اِس سربراہ اجلاس میں جِس میں شرکت کے لئے امریکی صدر براک اوبامہ وہاں پہنچ چکے ہیں، ایسا لگ رہا ہے، معاشی امور کے مقابلے میں شام میں امکانی فوجی کاروائی کا موضوع زیادہ چھایا رہے گا۔
شام کا موضوع یوں تو ایجنڈے میں شامل نہیں ہے، لیکن اِس دو روزہ اجلاس سے باہر جو تبادلہٴ خیال ہوگا اس میں یہ موضوع سر فہرست ہوگا۔
اِس میں شام کے لئے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی نمائندے، لخدر براہیمی کی وہ کوشش شامل ہے جو وہ جینیوا میں ایک امن کانفرنس منعقد کرانے کے لئے کر رہے ہیں، جب کہ اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل نے زور دے کر کہا ہے کہ شام میں خون خرابے سے بچنے کا واحد طریقہ ایک سیاسی حل ہے۔
ادھر روسی صدر ولادی میں پُوٹن نے خبردار کیا ہے کہ اگر شامی صدر بشارا لاسد کی حکومت اُلٹنے کی غرض سے، اقوام متحدہ کی واضح منظوری کے بغیر، فوجی کاروائی کی گئی، تو یہ اُن کے خیال میں ایک جارحانہ اقدام ہوگا۔ لیکن، اس کے ساتھ ساتھ مسٹر پُوٹن اس ہفتے یہ بھی کہہ چُکے ہیں کہ اگر یہ ثابت کیا گیا کہ شامی حکومت نے اپنے ہی عوام کے خلاف زہریلی گیس کا استعمال کیا ہے، تو اس صورت میں وہ اقوام متحدہ کی طرف سے کسی کاروائی کی حمائت کرنے کو خارج از امکان نہیں سمجھتے۔
ادھر چینی نائب وزیر خزانہ زُو گوانگ یاؤ نے بھی وہاں پہنچنے پر صحافیوں کو بتایا کہ شام کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی وجہ سے عالمی معیشت پر اور خاص طور پر تیل کی قیمتوں پر منفی اثر پڑے گا۔
جی 20 تنظیم کے اس سربراہ اجلاس میں جو ملک شرکت کر رہے ہیں اُن میں چین، ہندوستان، امریکہ، فرانس، برزیل، کینیڈا اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ ان ملکوں میں دنیا کی پوری آبادی کا دو تہائی آباد ہے۔
صدر اوبامہ کی جی 20 کے اجلاس میں شرکت کے لئے روانگی سے قبل، ان کی شام کے خلاف فوجی کاروائی کی فوری حمائت کی درخواست نے پیش رفت کی، جب سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی نے اسے تین کے مقابلے میں دس ووٹوں سے پاس کیا۔
لیکن، جیسا کہ ’نیو یارک پوسٹ‘ کہتا ہے، اس میں امریکی برّی فوج کی لڑائی میں شرکت کو خارج ازامکان قرار دیا ہےاور کمیٹی کا یہ ووٹ کانگریس کی جانب سے اختتام ہفتہ اُن کے اس غیر متوقع اعلان پر پہلا ردّعمل تھا کہ وہ شام پر کروز مزائیلوں کے حملے کو موخّر کر رہے ہیں اور اس کے بدلے پہلے ارکان کانگریس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس منصوبے پر متحد ہو جائیں۔
سینیٹ کے پورے ایوان میں صدر کی تجویز پر ووٹنگ سے چند روز قبل ایسو سی ایٹڈ پریس نے اس ایوان کے ارکان کا ایک جائزہ اخبار ’فلاڈلفیا انکوائیرر‘ میں شائع ہوا ہے، جس کے مطابق، اس ایوان کے 100 ارکان میں سے 34 ارکان اس تجویز کے حق میں تھے، اور 26 خلاف، جب کہ 40 ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر پائے ہیں۔
شام کا موضوع یوں تو ایجنڈے میں شامل نہیں ہے، لیکن اِس دو روزہ اجلاس سے باہر جو تبادلہٴ خیال ہوگا اس میں یہ موضوع سر فہرست ہوگا۔
اِس میں شام کے لئے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی نمائندے، لخدر براہیمی کی وہ کوشش شامل ہے جو وہ جینیوا میں ایک امن کانفرنس منعقد کرانے کے لئے کر رہے ہیں، جب کہ اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل نے زور دے کر کہا ہے کہ شام میں خون خرابے سے بچنے کا واحد طریقہ ایک سیاسی حل ہے۔
ادھر روسی صدر ولادی میں پُوٹن نے خبردار کیا ہے کہ اگر شامی صدر بشارا لاسد کی حکومت اُلٹنے کی غرض سے، اقوام متحدہ کی واضح منظوری کے بغیر، فوجی کاروائی کی گئی، تو یہ اُن کے خیال میں ایک جارحانہ اقدام ہوگا۔ لیکن، اس کے ساتھ ساتھ مسٹر پُوٹن اس ہفتے یہ بھی کہہ چُکے ہیں کہ اگر یہ ثابت کیا گیا کہ شامی حکومت نے اپنے ہی عوام کے خلاف زہریلی گیس کا استعمال کیا ہے، تو اس صورت میں وہ اقوام متحدہ کی طرف سے کسی کاروائی کی حمائت کرنے کو خارج از امکان نہیں سمجھتے۔
ادھر چینی نائب وزیر خزانہ زُو گوانگ یاؤ نے بھی وہاں پہنچنے پر صحافیوں کو بتایا کہ شام کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کی وجہ سے عالمی معیشت پر اور خاص طور پر تیل کی قیمتوں پر منفی اثر پڑے گا۔
جی 20 تنظیم کے اس سربراہ اجلاس میں جو ملک شرکت کر رہے ہیں اُن میں چین، ہندوستان، امریکہ، فرانس، برزیل، کینیڈا اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ ان ملکوں میں دنیا کی پوری آبادی کا دو تہائی آباد ہے۔
صدر اوبامہ کی جی 20 کے اجلاس میں شرکت کے لئے روانگی سے قبل، ان کی شام کے خلاف فوجی کاروائی کی فوری حمائت کی درخواست نے پیش رفت کی، جب سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی نے اسے تین کے مقابلے میں دس ووٹوں سے پاس کیا۔
لیکن، جیسا کہ ’نیو یارک پوسٹ‘ کہتا ہے، اس میں امریکی برّی فوج کی لڑائی میں شرکت کو خارج ازامکان قرار دیا ہےاور کمیٹی کا یہ ووٹ کانگریس کی جانب سے اختتام ہفتہ اُن کے اس غیر متوقع اعلان پر پہلا ردّعمل تھا کہ وہ شام پر کروز مزائیلوں کے حملے کو موخّر کر رہے ہیں اور اس کے بدلے پہلے ارکان کانگریس سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اس منصوبے پر متحد ہو جائیں۔
سینیٹ کے پورے ایوان میں صدر کی تجویز پر ووٹنگ سے چند روز قبل ایسو سی ایٹڈ پریس نے اس ایوان کے ارکان کا ایک جائزہ اخبار ’فلاڈلفیا انکوائیرر‘ میں شائع ہوا ہے، جس کے مطابق، اس ایوان کے 100 ارکان میں سے 34 ارکان اس تجویز کے حق میں تھے، اور 26 خلاف، جب کہ 40 ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر پائے ہیں۔