امریکی اخبارات سے: ڈرون حملوں میں وقفہ

اخبار ’لاس انجلس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ ایک امریکی عُہدہ دار نے اس کی وضاحت کردی ہے کہ ڈرون حملوں میں جو یہ وقفہ دیا گیا ہے، اُس کا اطلاق القاعدہ کے چوٹی کے اُن لیڈروں کی فہرست پر نہیں ہوتا، جنہیں کسی بھی وقت ان خفیہ ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے
امریکہ نے پاکستان کی درخواست پر طالبان کے ساتھ اُس کے امن مذاکرات کے دوران ڈرون حملو ن سے پرہیز کرنے کی جو حامی بھری ہے، اُس پر ’لاس انجلس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ ڈرون حملوں میں یہ وقفہ دسمبر سے چل رہا ہے۔ یعنی، اُس حملے سے سات ہفتے بعد جس میں طالبان لیڈر حکیم اللہ محسود کو ہلاک کیا گیا تھا۔ جب امن مذاکرات شروع ہونے والے تھے اور جس پر وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کی طرف سے غم وغصّے کا اظہار کیا گیا تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ ایک امریکی عُہدہ دار نے اس کی وضاحت کردی ہے کہ ڈرون حملوں میں جو یہ وقفہ دیا گیا ہے، اُس کا اطلاق القاعدہ کے چوٹی کے اُن لیڈروں کی فہرست پر نہیں ہوتا، جنہیں کسی بھی وقت ان خفیہ ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

اور، آج کل اِن حملوں کی تعداد میں جو کمی آئی ہے، اُس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے شمال مغربی علاقے کی سرزمین پر القاعدہ کی قیادت بُہت سُکڑ گئی ہے، جس کی وجہ ایک عشرے سے جاری ڈرون حملے اور انسداد دہشت گردی کے اقدامات ہیں۔ اور ان میں 2011ء میں امریکی بحریہ کے سِیلز کے ہاتھوں اوسامہ بن لادن کی ہلاکت بھی شامل ہے۔


ڈرون حملوں میں بھاری تخفیف سے متعلق سمجھوتے کے بارے میں اطلاع سب سے پہلے ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے دی تھی، اور ’لاس انجلیس ٹائمز‘ کا کہنا ہے کہ بظاہر اس سے دیکھ بھال کی پروازیں متاثّر نہیں ہوتیں۔

اخبار نے اوبامہ انتظامیہ کے ایک سرکردہ عہدہ دار کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکہ نہ صرف افغانستان کے میدان جنگ بلکہ اس سے ماورا بھی جارحانہ انداز سے دہشت گردوں کا سُراغ لگانے اور ان سے لاحق خطروں کو کُچلنے میں مصروف ہے، اور امریکہ اس پالیسی پر برابر کاربند ہے۔


اخبار کہتا ہے کہ اگر افغانستان کے ساتھ سیکیورٹی کا معاہدہ طے نہ پا سکا تو اس سال کے آخر تک اُس ملک سے تمام امریکی فوجیں ہٹالی جائیں گی۔ ان میں وُہ بھی شامل ہیں جن کے ذمّے اِن ڈرون طیاروں کے ہوائی اڈّوں کا انتظام ہے۔ اور اگر یہ ہوائی اڈے بند کئے گئے تو اُس صورت میں یہ ڈرون طیارے زیادہ دُور کے مقامات یا بحری جہازوں سے اُڑ کر پاکستان کے اوپر کاروائی کر سکتے ہیں۔

عہدہ داروں کے حوالے سے، اخبار کہتا ہے کہ اُس صورت میں ایسے حملے کرنا زیادہ مشکل ہوگا۔ لیکن، نا ممکن نہیں ہوگا۔


اخبار نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ امریکی محکمہٴخارجہ نے پاکستانی طالبان کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ اگرچہ، ان کے بیشتر حملوں کا ہدف پاکستان رہا ہے۔

انہوں نے پڑوسی ملک افغانستان میں امریکی فوجوں اور تنصیبات پر بھی تباہ کُن حملے کئے ہیں۔ البتہ، ان کا افغان طالبان کے ساتھ براہ راست الحاق نہیں۔ پاکستانی طالبان کے سربراہ محسود نے جسے یکم نومبر کو ہلاک کیا گیا تھا۔ سنہ 2009 میں خوست میں سی آئی آے کی خُفیہ چوکی پر حملہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جس میں سی آئی اے کے 7 افسر ہلاک ہوئے تھے۔ اور سنہ 2010 میں، نیو یارک کے ٹائمز سکوائر میں ناکام بم دھماکہ بھی اُسی کی کارستانی تھی۔ چنانچہ، امریکی حکومت نے اس کے سر کی قیمت پچاس لاکھ ڈالر لگائی تھی۔


ڈرون حملوں کی عارضی معطلی کے بارے میں، اخبار ’وال سٹریٹ جرنل‘ نے سرکردہ امریکی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اُنہوں نے پچھلے چھ ماہ کے دوران پاکستانی عہدہ داروں کے ساتھ کئی ملاقاتوں میں اس مسئلے پر غور کیا ہے، تاکہ ڈرون طیاروں کی یہ مہم ایک تو دونوں ملکوں کے پہلے سے تلخ باہمی تعلّقات میں مزید تلخی نہ پیدا کریں اور دوسرے یہ کہ پروگرام کا جو وقت اب بچا ہوا ہے، اُس دوران سی آئی اے کے لئے ترجیحی نوعیت کے اوپریشن سر انجام دینے میں کوئی روکاوٹ نہ ہو۔ بالفاظ دیگر، مقصد یہ ہے کہ امریکہ کو اس پروگرام کو ختم کرنے کی راہ پر لگایا جائے۔ اگرچہ، اتنی جلدی نہیں جتنی کے اس پروگرام کے ناقدین یا پاکستان کی حکومت کا منشاٴ ہے۔

اخبار نے ایک سرکردہ امریکی عہدہ دار کے حوالے سے بتایا ہے کہ سی آئی اے کے ڈرون طیاروں کا زور اب اُونچے پیمانے کے محدود اہداف پر ہے، جس کے نتیجے میں، اس فہرست کے اہداف کی تعداد میں کمی آتی جا رہی ہے، اور اس طرح سے اس ادارے کے لئے یہ پروگرام بالآخر اختتام تک پہنچانا ممکن ہو جائے گا۔

اخبار نے یاد دلایا ہے کہ اگست میں جب وزیر خارجہ جان کیری اسلام آباد گئے تھے، تو اُنہوں نے وزیر اعظم نواز شریف کو رازداری میں بتا دیا تھا کہ اوبامہ انتظامیہ کا منشا ہے کہ سی آئی اے کے ڈرون حملوں کے پروگرام کو اُن کی وزارت عظمیٰ کی پہلی میعاد کے دوران ختم کیا جائے۔ یہ پانچ سالہ میعاد جو پچھلے سال جُون میں شروع ہوئی تھی، سنہ2018 میں ختم ہوگی۔

’وال سٹریٹ جرنل‘ امریکی عہدہ داروں کے حوالے سے بتاتا ہے کہ رواں سال کے دوران سی آئی اے کی توجّہ اعلیٰ درجے کے اہداف پر مرکُوز رہے گی۔مثلاً، ایمن الزواہری، جنہوں نے اوسامہ بن لادن کی امریکی کمانڈوز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد القاعدہ کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا ہے۔ اور ایک اعلیٰ عہدہ دار کے بقول، جب الزواہری اور ان کے چوٹی کے چند معاونین کا صفایا ہوجاتا ہے، تو سمجھئے کہ سی آئی اے کا یہ پروگرام بنیادی طور پر انجام کو پہنچ جائے گا۔

ڈرون حملوں کی عارضی معطلی کی اطلاع سب سے پہلے ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے دی تھی۔

ا
س کا کہنا ہے کہ نومبر میں حکیم اللہ محسود کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد، اوبامہ انتظامیہ کی یہ کوشش رہی ہے کہ نواز شریف حکومت کے ساتھ تعلّقات میں بہتری لائی جائے، جو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارجمہوری انتقال اقتدار کے نتیجے میں بر سر اقتدار آئی ہے۔ اور اوبامہ انتظامیہ کے عہدہ داروں نے اس حکومت کی اُن کوششوں کی تعریف کی ہے، جو وُہ پاکستان کے سنگین مسائل کو حل کرنے اور خطّے میں امن کو تقویت پہنچانے کے لئے کر رہے ہیں۔