اخبار کہتا ہے کہ چیف جسٹس نے بارہا حکومت کے فیصلوں کو چیلنج کیا ہے اور سیاست دانوں پر مقدّمے قائم کئے ہیں۔ پچھلے سال اُن کی سُپریم کورٹ نے وزیر ِاعظم یوسف رضا گیلانی کو اپنے عُہدے سے بر طرف کر دیا تھا اور جمعے کو پرویزمشرف کو گرفتار کیا گیا۔
وال سٹریٹ جرنل نے پچھلے پانچ سال کے دوران پاکستانی عدلیہ کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ، وقار اور رواں سال کے عام انتخابات میں اُس کے اہم کردار کا تجزیہ کیا ہے۔
اخبارکہتا ہے کہ جب سنہ 2007 میں اس وقت کے صدر پرویز مشرّف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور اُن کی عدلیہ کو برطرف کیا تھا تو اُس کے نتیجے میں ایک ایسی احتجاجی تحریک نے جنم لیا جس نے نہ صرف صدر کو اقتدار سے محروم کر دیا بلکہ ججوں کی عزّت اور وقار میں ڈرامائی طور پر اضافہ کر دیا۔ اب جب پاکستان 11 مئی کے انتخابات کے لئے تیاری کر رہا ہے مسٹر چوہدری اورعدلیہ کو مُلک کو جمہوری خطوط پر استوار کرنے میں اہم کردار حاصل ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ چیف جسٹس نے بارہا حکومت کے فیصلوں کو چیلنج کیا ہے اور سیاست دانوں پر مقدّمے قائم کئے ہیں۔ پچھلے سال اُن کی سُپریم کورٹ نے وزیر ِاعظم یوسف رضا گیلانی کو اپنے عُہدے سے بر طرف کر دیا تھا اور جمعے کو پرویزمشرف کو گرفتار کیا گیا۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ایک سابق فوجی سربراہ کو ججوں کے خلاف کاروائی کرنے کی پاداش میں جیل میں ڈال دیا گیا اور اُس کے خلاف ایک اور مقدّمے میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ پاکستان کی اگلی حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے کہ آیا بغاوت کرنے پراُن کے خلاف مقدمہ چلنا چاہئے یا نہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر چوہدری کی عدلیہ کا اگلی حکومت کو منتخب کرنے کے طریق ِکار میں بھی عملی کردار رہا ہے۔ عدلیہ نے مسٹر مشرف کو انتخاب لڑنے کے لئے نا اہل قراردیا ہے اور اِسی طرح چار ہزار دوسرے امیدواروں کو بھی انتخاب لڑنے کے لئے نا اہل قرار دیا ہے۔ اُن کے حامی کہتے ہیں کہ مسٹر چوہدری نے عدلیہ کوایسی طاقت میں بدل دیا ہے جو حکومت پر روک کا کام کرتی ہے اور ایسے سیاست دانوں کو سزا دیتی ہے جواپنےعُہدے کو عوام کے وسائیل کو لُوٹنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایک ایسے ملک میں جس کی تاریخ، فوجی بغاوتوں اورعشروں کے فوجی راج سےعبارت ہے مسٹر چوہدری ملک کے اس سب سے طاقتورادارے کی راہ میں ایک رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور گیارہ مئی کے انتخابات کے نتیجے میں پہلی مرتبہ اقتدار ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو منتقل کیا جائے گا۔
اسلام آباد میں ججوں کی ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ حکومت کی طرف سے نیک انتظامی کی عدم موجودگی کی صورت میں اس کمی کو دور کرنے کی ذمّہ داری عدلیہ پرعائد ہوتی ہے چنانچہ پاکستان کے شہریوں نے اپنی اُمنگوں کے حصول کے لئے عدلیہ پر زیادہ تکیہ کرنا شروع کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس عوامی تحریک کے نتیجے میں حکومت اُنہیں اپنے عُہدے پر بحال کرنے پر مجبور ہو گئی تھی وہ ملک میں ایک سنگ ِمیل کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے بعد سپریم کورٹ ایسی بلندی پر پہنچ گئی ہے کہ وُہ حالات کو بدل کر قوم کی افترا تفری سے نکلنے میں رہنمائی کر سکتی ہے۔
یو ایس اے ٹوڈے کہتا ہے کہ ہر سال یوم ِارض کے موقع پر ہمیں ماحولیاتی ابتلاء کا پیغام ملتا ہے۔ اور دولتمند ملکوں کے اس جذبے کے پس منظرمیں اُن کی حکومتوں نے دل کی تسلّی کے لئے اربوں ڈالر کا سرمایہ بیکار پالیسیوں میں جھونک دیا ہے۔ مثلاً شمسی پینلوں اور الیکٹرک کاروں کی اعانت کرنے کے لئے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ اس کرّہِ ارض پر ماحولیات کو بہتر بنانے کے لئے اس سے زیادہ کارگر طریقے آزمانے کی ضرورت ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے اخبار کہتا ہے کہ جرمنی کے ٹیکس گُذار شمسی پینلوں پر130 ارب ڈالر کی مالی اعانت دے چُکے ہیں لیکن اس سے زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ برآمد ہوگا کہ اس صدی کے آخر تک عالمی حرارت کےعمل میں محض 37 گھنٹے کی تاخیر ہوگی، الیکٹرک کار کے بارے میں اخبار کہتا ہے کہ اس کی افادیت اس سے بھی کم ہے اور اگر سنہ 2015 تک الیکٹرک کاروں کی تعداد مطلوبہ دس لاکھ تک بھی پہنچ گئی۔ تو اس کے نتیجے میں عالمی حرارت کے عمل میں محض ساٹھ منٹ کی تاخیر ہوگی۔
چنانچہ اخبار کہتا ہے کہ اِن پیچیدہ پالیسیوں پر خطیرلاگت آتی ہے اور ماحولیات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اخبار کہتا ہے کہ یوم ِارض کے موقع پر ماحولیاتی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئےحقیقت پسندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اور یہ چیلنج ہوا اور پانی کی آلودگی ہے جس نے اربوں انسانوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے۔
اخبارکہتا ہے کہ جب سنہ 2007 میں اس وقت کے صدر پرویز مشرّف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور اُن کی عدلیہ کو برطرف کیا تھا تو اُس کے نتیجے میں ایک ایسی احتجاجی تحریک نے جنم لیا جس نے نہ صرف صدر کو اقتدار سے محروم کر دیا بلکہ ججوں کی عزّت اور وقار میں ڈرامائی طور پر اضافہ کر دیا۔ اب جب پاکستان 11 مئی کے انتخابات کے لئے تیاری کر رہا ہے مسٹر چوہدری اورعدلیہ کو مُلک کو جمہوری خطوط پر استوار کرنے میں اہم کردار حاصل ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ چیف جسٹس نے بارہا حکومت کے فیصلوں کو چیلنج کیا ہے اور سیاست دانوں پر مقدّمے قائم کئے ہیں۔ پچھلے سال اُن کی سُپریم کورٹ نے وزیر ِاعظم یوسف رضا گیلانی کو اپنے عُہدے سے بر طرف کر دیا تھا اور جمعے کو پرویزمشرف کو گرفتار کیا گیا۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ایک سابق فوجی سربراہ کو ججوں کے خلاف کاروائی کرنے کی پاداش میں جیل میں ڈال دیا گیا اور اُس کے خلاف ایک اور مقدّمے میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ پاکستان کی اگلی حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے کہ آیا بغاوت کرنے پراُن کے خلاف مقدمہ چلنا چاہئے یا نہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر چوہدری کی عدلیہ کا اگلی حکومت کو منتخب کرنے کے طریق ِکار میں بھی عملی کردار رہا ہے۔ عدلیہ نے مسٹر مشرف کو انتخاب لڑنے کے لئے نا اہل قراردیا ہے اور اِسی طرح چار ہزار دوسرے امیدواروں کو بھی انتخاب لڑنے کے لئے نا اہل قرار دیا ہے۔ اُن کے حامی کہتے ہیں کہ مسٹر چوہدری نے عدلیہ کوایسی طاقت میں بدل دیا ہے جو حکومت پر روک کا کام کرتی ہے اور ایسے سیاست دانوں کو سزا دیتی ہے جواپنےعُہدے کو عوام کے وسائیل کو لُوٹنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایک ایسے ملک میں جس کی تاریخ، فوجی بغاوتوں اورعشروں کے فوجی راج سےعبارت ہے مسٹر چوہدری ملک کے اس سب سے طاقتورادارے کی راہ میں ایک رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور گیارہ مئی کے انتخابات کے نتیجے میں پہلی مرتبہ اقتدار ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو منتقل کیا جائے گا۔
اسلام آباد میں ججوں کی ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ حکومت کی طرف سے نیک انتظامی کی عدم موجودگی کی صورت میں اس کمی کو دور کرنے کی ذمّہ داری عدلیہ پرعائد ہوتی ہے چنانچہ پاکستان کے شہریوں نے اپنی اُمنگوں کے حصول کے لئے عدلیہ پر زیادہ تکیہ کرنا شروع کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس عوامی تحریک کے نتیجے میں حکومت اُنہیں اپنے عُہدے پر بحال کرنے پر مجبور ہو گئی تھی وہ ملک میں ایک سنگ ِمیل کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے بعد سپریم کورٹ ایسی بلندی پر پہنچ گئی ہے کہ وُہ حالات کو بدل کر قوم کی افترا تفری سے نکلنے میں رہنمائی کر سکتی ہے۔
یو ایس اے ٹوڈے کہتا ہے کہ ہر سال یوم ِارض کے موقع پر ہمیں ماحولیاتی ابتلاء کا پیغام ملتا ہے۔ اور دولتمند ملکوں کے اس جذبے کے پس منظرمیں اُن کی حکومتوں نے دل کی تسلّی کے لئے اربوں ڈالر کا سرمایہ بیکار پالیسیوں میں جھونک دیا ہے۔ مثلاً شمسی پینلوں اور الیکٹرک کاروں کی اعانت کرنے کے لئے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ اس کرّہِ ارض پر ماحولیات کو بہتر بنانے کے لئے اس سے زیادہ کارگر طریقے آزمانے کی ضرورت ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے اخبار کہتا ہے کہ جرمنی کے ٹیکس گُذار شمسی پینلوں پر130 ارب ڈالر کی مالی اعانت دے چُکے ہیں لیکن اس سے زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ برآمد ہوگا کہ اس صدی کے آخر تک عالمی حرارت کےعمل میں محض 37 گھنٹے کی تاخیر ہوگی، الیکٹرک کار کے بارے میں اخبار کہتا ہے کہ اس کی افادیت اس سے بھی کم ہے اور اگر سنہ 2015 تک الیکٹرک کاروں کی تعداد مطلوبہ دس لاکھ تک بھی پہنچ گئی۔ تو اس کے نتیجے میں عالمی حرارت کے عمل میں محض ساٹھ منٹ کی تاخیر ہوگی۔
چنانچہ اخبار کہتا ہے کہ اِن پیچیدہ پالیسیوں پر خطیرلاگت آتی ہے اور ماحولیات میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اخبار کہتا ہے کہ یوم ِارض کے موقع پر ماحولیاتی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئےحقیقت پسندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اور یہ چیلنج ہوا اور پانی کی آلودگی ہے جس نے اربوں انسانوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے۔