اخبار رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ احسان اللہ افغان صوبے کُنّڑ میں دو ایسے پاکستانی طالبان دھڑوں کی باہمی آویزش میں اُلجھا ہوا تھا، جِن میں ہر ایک غلبہ حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا
’نیو یارک ٹائمز‘ کی رپورٹ ہے کہ پاکستانی طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کو بد اعتمادی پھیلانے کے الزام میں ہٹا دیا گیا ہے۔
اس کا اعلان طالبان کے گڑھ شمالی وزیرستان میں اشتہار تقسیم کرکے کیا گیا ہے، جن پر طالبان کی حکمران کونسل کے 10 ارکان کے دستخط ہیں۔
احسان اللہ کا اصل نام سجّاد مُہمند بتایا گیا ہے۔ اُس پر یہ الزام ہے کہ وُہ پاکستانی اور افغان تحریکوں کے مابین بدگمانی پھیلا رہا تھا، اور یہ کہ اِس کی جگہ کسی اور کو یہ ذمّہ داری سونپی جا رہی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس حقیقت کو اُس بڑھتے ہوئے تناؤ کی نگاہ سے دیکھا جار رہا ہےجو امریکی ڈرون طیاروں کے حملوں اور افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات شروع ہونے کے امکان کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
اخبار نے پاکستانی سیکیورٹی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ احسان اللہ افغان صوبے کُنّڑ میں دو ایسے پاکستانی طالبان دھڑوں کی باہمی آویزش میں اُلجھا ہوا تھا، جن میں ہر ایک غلبہ حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔
احسان اللہ کی برطرفی کے بارے میں ایک تیسرا قیاس یہ ہے کہ تحریک کی قیادت کے حصول کے لئےجدّوجہد جاری تھی۔ پاکستانی طالبان مئی میں ایک ڈرون حملے میں نائب امیر ولی الرحمان کی ہلاکت کے بعد اس کی جگہ کسی اور کو مقرر نہیں کر سکے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ احسان اللہ جس کا تعلّق مہمند ایجنسی سے ہے حالیہ برسوں میں بد نام زمانہ ہو چکا ہے۔ پچھلے سال، اُس نے سینکڑوں شہریوں اور فوجیوں پر حملے کرنے کے دعوے کئے جِن میں کم سن لڑکی ملالہ یوسف زئی شامل ہے، جس کو اکتوبر میں سر میں گولی مار دی گئی تھی۔ اور پچھلے ماہ اس نے گلگت بلتستان میں نو کوہ پیماؤں اور اُن کے گائڈ کو ہلاک کرنے کا بھی دعویٰ کیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ احسان اللہ شمالی وزیرستان سے نسبتاً کھلم کُھلا صحافیوں کو ٹیکسٹ پیغامات بھیجتا رہا ہے یا پھر میراں شاہ سے باہر انٹرویو دیتا آیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس کی برطرفی ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب پاکستان طالبان کی کمان ایک ہنگامہ خیز دور سے گُذر رہی ہے۔ اس تنظیم کا لیڈر حکیم اللہ محسود ایک سال سے زیادہ عرصے سے نظر نہیں آیا ہے۔ امریکی ڈرون طیّارے اُسے نشانہ بنانے کی کوشش کرتے آئے ہیں، اور اس کا ایک نائب رحمان ایک حملے میں ہلاک ہوا ہے جس کے بعد اُس کے جانشین کے تقرر پرجھگڑا شروع ہوگیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس کے باوجود، طالبان ابھی بھی ایک خوفناک طاقت ہیں، جنہوں نے اس سال پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اپنے لئے جگہ پیدا کرلی ہے۔ مئی کے انتخابات سے قبل اُنہوں نے وُہاں تقریباً 125 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، بغیر ہواباز کے چلنے والا ایک ڈروں طیّارہ کامیابی کے ساتھ ریاست ورجنیا کے ساحل ِسمندر کے قریب طیارہ بردار بحری جہاز کے عشرے پر اُترنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے، اور بُدھ کے روز اس کارنامے کو بغیر پائلٹ کے ہوا بازی کے فن میں زبردست پیش رفت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
امریکی بحریہ کے عہدہ داروں نے اسے ہوابازی میں ایک سنگِ میل قرار دیا ہے اور اِسے ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر کے اُس پروگرام کی کامیابی سے تعبیر کیا ہے جس کا مقصد یہ امتحان کرنا ہے کہ آیا دُور مار کرنے والے ڈرون طیاروں کو طیارہ بردار بحری جہازوں پر کامیابی سے اُتارا جا سکتا ہے کہ نہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی فوج 15 سال سے ڈرون طیارے کا میدان جنگ میں استعمال کرتی آئی ہے۔ اور بغیر ہوا باز کے چلنے والے یہ ڈرون طیارے نے نہائت اہم جنگی فرائض سر انجام دئے ہیں۔
’شکاگو سن ٹائمز‘ کے مطابق، صدر براک اوبامہ ابھی بھی اس پر غور کر رہے ہیں کہ سنہ2014 کے بعد افغانستان میں کتنی امریکی فوج افغانستان میں پیچھے چھوڑی جائے۔
اخبار نے افغانستان اور پاکستان کے لئے خصوصی سفیر جیمز ڈابنز کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی انتظامیہ کا افغانوں کے ساتھ طویل المیعاد شراکت داری کا جو معاہدہ ہے اس کے تحت افغان سیکیورٹی کا اپنا بندو بست کریں گے،جس کی بدولت وُہ القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے بچے کُچھے ایسے عناصر کو شکست دے سکیں گے جو امریکہ کے لئے خطرہ ہوٕ اور اس کے لئے امریکہ کو وہاں اتنی فوج نہیں رکھنی پڑے گی جتنی اس وقت ہے۔ اِس کی تعداد اس وقت 66 ہزار ہے۔
اس کا اعلان طالبان کے گڑھ شمالی وزیرستان میں اشتہار تقسیم کرکے کیا گیا ہے، جن پر طالبان کی حکمران کونسل کے 10 ارکان کے دستخط ہیں۔
احسان اللہ کا اصل نام سجّاد مُہمند بتایا گیا ہے۔ اُس پر یہ الزام ہے کہ وُہ پاکستانی اور افغان تحریکوں کے مابین بدگمانی پھیلا رہا تھا، اور یہ کہ اِس کی جگہ کسی اور کو یہ ذمّہ داری سونپی جا رہی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس حقیقت کو اُس بڑھتے ہوئے تناؤ کی نگاہ سے دیکھا جار رہا ہےجو امریکی ڈرون طیاروں کے حملوں اور افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات شروع ہونے کے امکان کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
اخبار نے پاکستانی سیکیورٹی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ احسان اللہ افغان صوبے کُنّڑ میں دو ایسے پاکستانی طالبان دھڑوں کی باہمی آویزش میں اُلجھا ہوا تھا، جن میں ہر ایک غلبہ حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔
احسان اللہ کی برطرفی کے بارے میں ایک تیسرا قیاس یہ ہے کہ تحریک کی قیادت کے حصول کے لئےجدّوجہد جاری تھی۔ پاکستانی طالبان مئی میں ایک ڈرون حملے میں نائب امیر ولی الرحمان کی ہلاکت کے بعد اس کی جگہ کسی اور کو مقرر نہیں کر سکے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ احسان اللہ جس کا تعلّق مہمند ایجنسی سے ہے حالیہ برسوں میں بد نام زمانہ ہو چکا ہے۔ پچھلے سال، اُس نے سینکڑوں شہریوں اور فوجیوں پر حملے کرنے کے دعوے کئے جِن میں کم سن لڑکی ملالہ یوسف زئی شامل ہے، جس کو اکتوبر میں سر میں گولی مار دی گئی تھی۔ اور پچھلے ماہ اس نے گلگت بلتستان میں نو کوہ پیماؤں اور اُن کے گائڈ کو ہلاک کرنے کا بھی دعویٰ کیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ احسان اللہ شمالی وزیرستان سے نسبتاً کھلم کُھلا صحافیوں کو ٹیکسٹ پیغامات بھیجتا رہا ہے یا پھر میراں شاہ سے باہر انٹرویو دیتا آیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس کی برطرفی ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب پاکستان طالبان کی کمان ایک ہنگامہ خیز دور سے گُذر رہی ہے۔ اس تنظیم کا لیڈر حکیم اللہ محسود ایک سال سے زیادہ عرصے سے نظر نہیں آیا ہے۔ امریکی ڈرون طیّارے اُسے نشانہ بنانے کی کوشش کرتے آئے ہیں، اور اس کا ایک نائب رحمان ایک حملے میں ہلاک ہوا ہے جس کے بعد اُس کے جانشین کے تقرر پرجھگڑا شروع ہوگیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اس کے باوجود، طالبان ابھی بھی ایک خوفناک طاقت ہیں، جنہوں نے اس سال پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اپنے لئے جگہ پیدا کرلی ہے۔ مئی کے انتخابات سے قبل اُنہوں نے وُہاں تقریباً 125 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، بغیر ہواباز کے چلنے والا ایک ڈروں طیّارہ کامیابی کے ساتھ ریاست ورجنیا کے ساحل ِسمندر کے قریب طیارہ بردار بحری جہاز کے عشرے پر اُترنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے، اور بُدھ کے روز اس کارنامے کو بغیر پائلٹ کے ہوا بازی کے فن میں زبردست پیش رفت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
امریکی بحریہ کے عہدہ داروں نے اسے ہوابازی میں ایک سنگِ میل قرار دیا ہے اور اِسے ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر کے اُس پروگرام کی کامیابی سے تعبیر کیا ہے جس کا مقصد یہ امتحان کرنا ہے کہ آیا دُور مار کرنے والے ڈرون طیاروں کو طیارہ بردار بحری جہازوں پر کامیابی سے اُتارا جا سکتا ہے کہ نہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکی فوج 15 سال سے ڈرون طیارے کا میدان جنگ میں استعمال کرتی آئی ہے۔ اور بغیر ہوا باز کے چلنے والے یہ ڈرون طیارے نے نہائت اہم جنگی فرائض سر انجام دئے ہیں۔
’شکاگو سن ٹائمز‘ کے مطابق، صدر براک اوبامہ ابھی بھی اس پر غور کر رہے ہیں کہ سنہ2014 کے بعد افغانستان میں کتنی امریکی فوج افغانستان میں پیچھے چھوڑی جائے۔
اخبار نے افغانستان اور پاکستان کے لئے خصوصی سفیر جیمز ڈابنز کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی انتظامیہ کا افغانوں کے ساتھ طویل المیعاد شراکت داری کا جو معاہدہ ہے اس کے تحت افغان سیکیورٹی کا اپنا بندو بست کریں گے،جس کی بدولت وُہ القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے بچے کُچھے ایسے عناصر کو شکست دے سکیں گے جو امریکہ کے لئے خطرہ ہوٕ اور اس کے لئے امریکہ کو وہاں اتنی فوج نہیں رکھنی پڑے گی جتنی اس وقت ہے۔ اِس کی تعداد اس وقت 66 ہزار ہے۔