نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ طالبان نے ووٹروں کو خبردار کیا ہے کہ وہ نیشنل عوامی پارٹی، پیپلزپارٹی اور متّحدہ قومی موومنٹ کے جلسوں میں شرکت سے احتراز کریں۔
11 مئی کے انتخابات کے لئے آج کل پاکستان میں جو انتخابی مہم جاری ہے اُس پر نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ ملک کے شمال مغرب میں یہ مہم تاریک مرحلے سے گُذر رہی ہے۔ جہاں سیکیولر پارٹیوں کے خلاف طالبان کے حملوں کی نپی تُلی مُہم اور تشدّد جمہُوری منظرنامے کو مسخ کر رہا ہے۔ اور پچھلے دس دن کے دوران نیشنل عوامی پارٹی کو شدّت پسند چار مرتبہ بموں کا اورایک بار گرینیڈ کا نشانہ بنا چُکے ہیں۔ یہ پارٹی سنہ 2008ء سے خیبر پختون خواہ صوبے میں بر سر ِاقتدار تھی، اور اس کا سیکیولر نظریہ طالبان کے اُس نظریئے سے متصادم ہے جس کا مقصد ملک میں اسلامی خلافت کا نظام لانا ہے۔
گذشتہ منگل کو طالبان کے شدید ترین حملے میں ایک خود کُش بمبار نے پشاور شہر کے وسط میں 19 افراد کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کر دیا اور اس حملے میں سابقہ وفاقی وزیر غلام احمد بلور بال بال بچے۔
اخبار نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ طالبان نے ووٹروں کو خبردار کیا ہے کہ وہ تین بڑی سیکیولر پارٹیوں کے جلسوں میں شرکت کرنے سے احتراز کریں جن میں نیشنل عوامی پارٹی کےعلاوہ صدرآصف زرداری کی پیپلزپارٹی اور متّحدہ قومی موومنٹ شامل ہیں۔ البتّہ اب تک اُن کی زیادہ تر توجہ عوامی نیشنل پارٹی پر ہی مرکُوزرہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے طالبان اُس کے امید واروں کے لئے آزادانہ مہم چلانے میں رکاوٹیں پیدا کررہے ہیں جب کہ زیادہ قدامت پسند پارٹیوں کے لئے اُن کے دل میں نرم گوشہ ہے۔
اخبار نے آئی ایس آئی کے ایک ریٹائرڈ برگیڈئر اسد مُنیر کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان نے پاکستان کی مملکت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اور وُہ من مانی کرتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ یوں بھی عوامی نیشنل پارٹی کے لئے انتخابات کا امتحان اتنا آسان نہیں، کیونکہ اُس کے اقتدار کے دور میں اس پر بدانتظامی اور رشوت خوری کا الزام ہے جس کی وجہ سے ووٹنگ میں اس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن اس وقت لگ رہا ہے کہ طالبان سیاسی میدان میں اس کا نام و نشان تک مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔ پچھلے پانچ سال کے دوران طالبان اس پارٹی کے سات سو سرگرم کارکنوں کو ہلاک کر چُکے ہیں جن میں دو رکن ِاسمبلی اور ایک سینئر وزیر شامل ہیں۔ کراچی پشتون علاقوں میں پچھلے چھ ماہ میں اس کے چالیس کارکنوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ پاکستان میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے مقابلے میں اے این پی کا زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔ خود پارٹی کے لیڈراسفندیار ولی خان سنہ 2009ء میں ایک خودکش حملے میں بال بال بچے تھے۔ اوراُن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وُہ اپنی انتخابی مہم اسلام آباد کے محفوظ ماحول سے چلا رہے ہیں۔ جبکہ ان کی پارٹی کے دوسرے امیدواروں کے لئے اپنے صوبے کے قصبوں اور دیہات میں انتخابی مہم چلانا ایک ڈرپوک عمل بن گیا ہے۔
افغانستان سے امریکی اور دوسری نیٹو فوجوں کا انخلاء سنہ 2014ء کے آخر تک ہونا ہے۔ لیکن لاس انجلس ٹائمز کی رپورٹ ہے کہ ایسے افغانوں کی کمی نہیں، جو کسی بھی قیمت پراس انخلاء سے بھی پہلے اس ملک سے بھاگنے کی حکمتِ عملی وضع کر رہے ہیں۔ اور ایک تازہ جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغان تاجروں، سیاسی لیڈروں اور شہروں میں رہنے والے متوسّط طبقے پر قنوطیت چھائی ہوئی ہے۔ اس جائزے کے مطابق سنہ 2014ء میں جس عدم استحکام کا اندیشہ ہے، اس کی وجہ سے ایسے لوگوں اور پیسے کے ملک سے باہر جانے کا عمل شروع ہوگا جوحقیقت میں اس عدم استحکام کو روک سکتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ دولت مند لوگ بیرون ِملک فالتو مکان خرید رہے ہیں اور بھاری رقوم افغانستان سے باہر بھیج رہے ہیں۔ پھر ایسے لوگ ہیں کہ جو سمندر پار ملکوں میں حصول ِتعلیم کے لئے درخواستیں دے رہے ہیں۔ ملک سے باہر اپنےعزیزوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ انہیں اپنے پاس بلا لیں یا پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی جان کی بازی لگا کر دوسرے ملکوں میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ باہر کے ملکوں کا ویزا حاصل کرنا قریب قریب ناممکن ہو گیا ہے۔ اسی وجہ سے بعض ٹریول ایجنٹ انہیں جھانسہ دیتے ہیں کہ وہ باہر کے ملکوں میں رہنے والے خاندانوں سے اُن کے لئے دعوت نامے کا انتظام کر سکتے ہیں جسے ویزے کی درخواستوں کے ساتھ نتھی کیا جا سکتا ہے اور سفارت خانوں میں اُن کے واقف کاروں کی وساطت سے رازداری میں ویزا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ اس پر بُہت زیادہ لاگت آسکتی ہے اور یہ طریقہ ہمیشہ کارگرثابت بھی نہیں ہوتا۔
اخبار کہتا ہے کہ عشروں سے جاری لڑائی اور قدرتی آفات نے افغان باشندوں کو زیادہ محفوظ اور خوشحال زندگی کی تلاش میں مُلک چھوڑنے پرمجبورکیا ہے۔ بیسویں صدی کا ایک نہایت ہی ڈرامائی پناہ گزین بُحران 1980ء کی دہائی میں اُٹھ کھڑا ہوا تھا جب سویت قبضے کے دوران لاکھوں افغان، پاکستان اور ایران بھاگ جانے پر مجبور ہوئے تھے۔ اور پھر 1990ء کی خانہ جنگی کے بعد طالبان کی سفّاکانہ حکومت ملک پر مسلّط ہو گئی تھی۔ اس طرح فرار ہونے والوں میں افغانستان دانشور طبقہ شامل تھا۔ جن میں سے بعض نے امریکہ اور یورپ میں سکُونت اختیار کرلی۔
اخبار کہتا ہے کہ سنہ 2001ء میں امریکی قیادت میں فوجوں کی مدد سے اسلامی شدّت پسندوں کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو پناہ گزینوں کی بھاری تعداد واپس افغانستان آ گئی۔ لیکن واپسی کی یہ رفتار ایک عشرے میں پہلی بار سُست پڑ گئی ہے۔
نقل ِوطن سے وابستہ بین الاقوامی تنطیم کے عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ پچھلے سال افغانستان واپس آنے والوں کے مقابلے میں افغانستان چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اور اعلیٰ تاجر اور سیاست دان طبقے کے اپنے خاندانوں اور اثاثوں سمیت ملک چھوڑ کر جانے سے کابل میں مکانوں اور زمینوں کی قیمت پچاس فیصد کی حد تک گر گئی ہے۔
گذشتہ منگل کو طالبان کے شدید ترین حملے میں ایک خود کُش بمبار نے پشاور شہر کے وسط میں 19 افراد کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کر دیا اور اس حملے میں سابقہ وفاقی وزیر غلام احمد بلور بال بال بچے۔
اخبار نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ طالبان نے ووٹروں کو خبردار کیا ہے کہ وہ تین بڑی سیکیولر پارٹیوں کے جلسوں میں شرکت کرنے سے احتراز کریں جن میں نیشنل عوامی پارٹی کےعلاوہ صدرآصف زرداری کی پیپلزپارٹی اور متّحدہ قومی موومنٹ شامل ہیں۔ البتّہ اب تک اُن کی زیادہ تر توجہ عوامی نیشنل پارٹی پر ہی مرکُوزرہی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے طالبان اُس کے امید واروں کے لئے آزادانہ مہم چلانے میں رکاوٹیں پیدا کررہے ہیں جب کہ زیادہ قدامت پسند پارٹیوں کے لئے اُن کے دل میں نرم گوشہ ہے۔
اخبار نے آئی ایس آئی کے ایک ریٹائرڈ برگیڈئر اسد مُنیر کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان نے پاکستان کی مملکت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اور وُہ من مانی کرتے ہوئے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ یوں بھی عوامی نیشنل پارٹی کے لئے انتخابات کا امتحان اتنا آسان نہیں، کیونکہ اُس کے اقتدار کے دور میں اس پر بدانتظامی اور رشوت خوری کا الزام ہے جس کی وجہ سے ووٹنگ میں اس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن اس وقت لگ رہا ہے کہ طالبان سیاسی میدان میں اس کا نام و نشان تک مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔ پچھلے پانچ سال کے دوران طالبان اس پارٹی کے سات سو سرگرم کارکنوں کو ہلاک کر چُکے ہیں جن میں دو رکن ِاسمبلی اور ایک سینئر وزیر شامل ہیں۔ کراچی پشتون علاقوں میں پچھلے چھ ماہ میں اس کے چالیس کارکنوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ پاکستان میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے مقابلے میں اے این پی کا زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔ خود پارٹی کے لیڈراسفندیار ولی خان سنہ 2009ء میں ایک خودکش حملے میں بال بال بچے تھے۔ اوراُن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وُہ اپنی انتخابی مہم اسلام آباد کے محفوظ ماحول سے چلا رہے ہیں۔ جبکہ ان کی پارٹی کے دوسرے امیدواروں کے لئے اپنے صوبے کے قصبوں اور دیہات میں انتخابی مہم چلانا ایک ڈرپوک عمل بن گیا ہے۔
افغانستان سے امریکی اور دوسری نیٹو فوجوں کا انخلاء سنہ 2014ء کے آخر تک ہونا ہے۔ لیکن لاس انجلس ٹائمز کی رپورٹ ہے کہ ایسے افغانوں کی کمی نہیں، جو کسی بھی قیمت پراس انخلاء سے بھی پہلے اس ملک سے بھاگنے کی حکمتِ عملی وضع کر رہے ہیں۔ اور ایک تازہ جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغان تاجروں، سیاسی لیڈروں اور شہروں میں رہنے والے متوسّط طبقے پر قنوطیت چھائی ہوئی ہے۔ اس جائزے کے مطابق سنہ 2014ء میں جس عدم استحکام کا اندیشہ ہے، اس کی وجہ سے ایسے لوگوں اور پیسے کے ملک سے باہر جانے کا عمل شروع ہوگا جوحقیقت میں اس عدم استحکام کو روک سکتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ دولت مند لوگ بیرون ِملک فالتو مکان خرید رہے ہیں اور بھاری رقوم افغانستان سے باہر بھیج رہے ہیں۔ پھر ایسے لوگ ہیں کہ جو سمندر پار ملکوں میں حصول ِتعلیم کے لئے درخواستیں دے رہے ہیں۔ ملک سے باہر اپنےعزیزوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ انہیں اپنے پاس بلا لیں یا پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی جان کی بازی لگا کر دوسرے ملکوں میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ باہر کے ملکوں کا ویزا حاصل کرنا قریب قریب ناممکن ہو گیا ہے۔ اسی وجہ سے بعض ٹریول ایجنٹ انہیں جھانسہ دیتے ہیں کہ وہ باہر کے ملکوں میں رہنے والے خاندانوں سے اُن کے لئے دعوت نامے کا انتظام کر سکتے ہیں جسے ویزے کی درخواستوں کے ساتھ نتھی کیا جا سکتا ہے اور سفارت خانوں میں اُن کے واقف کاروں کی وساطت سے رازداری میں ویزا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ اس پر بُہت زیادہ لاگت آسکتی ہے اور یہ طریقہ ہمیشہ کارگرثابت بھی نہیں ہوتا۔
اخبار کہتا ہے کہ عشروں سے جاری لڑائی اور قدرتی آفات نے افغان باشندوں کو زیادہ محفوظ اور خوشحال زندگی کی تلاش میں مُلک چھوڑنے پرمجبورکیا ہے۔ بیسویں صدی کا ایک نہایت ہی ڈرامائی پناہ گزین بُحران 1980ء کی دہائی میں اُٹھ کھڑا ہوا تھا جب سویت قبضے کے دوران لاکھوں افغان، پاکستان اور ایران بھاگ جانے پر مجبور ہوئے تھے۔ اور پھر 1990ء کی خانہ جنگی کے بعد طالبان کی سفّاکانہ حکومت ملک پر مسلّط ہو گئی تھی۔ اس طرح فرار ہونے والوں میں افغانستان دانشور طبقہ شامل تھا۔ جن میں سے بعض نے امریکہ اور یورپ میں سکُونت اختیار کرلی۔
اخبار کہتا ہے کہ سنہ 2001ء میں امریکی قیادت میں فوجوں کی مدد سے اسلامی شدّت پسندوں کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو پناہ گزینوں کی بھاری تعداد واپس افغانستان آ گئی۔ لیکن واپسی کی یہ رفتار ایک عشرے میں پہلی بار سُست پڑ گئی ہے۔
نقل ِوطن سے وابستہ بین الاقوامی تنطیم کے عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ پچھلے سال افغانستان واپس آنے والوں کے مقابلے میں افغانستان چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اور اعلیٰ تاجر اور سیاست دان طبقے کے اپنے خاندانوں اور اثاثوں سمیت ملک چھوڑ کر جانے سے کابل میں مکانوں اور زمینوں کی قیمت پچاس فیصد کی حد تک گر گئی ہے۔