امریکی اخبارات سے: امریکہ اور امریکہ میں بسنے والے مسلمان

اخبار کہتا ہے کہ نفرت کی بنیاد پر سنہ 2000 سے اب تک امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف ایک سو سے دو سو کے درمیان جرائم پیش آئے ہیں اور ایف بی آئی کے مطابق اس ساڑھے 31 کروڑ آبادی والے ملک میں ہزاروں جرائم ہوتے ہیں۔
بوسٹن میں مشہور ِزمانہ میراتھن کے اختتام پردو چیچن بھائیوں نے بم دہماکے کرکے کشت و خوں کا جو بازار گرم کیا تھا اس کے پس منظر میں لاس انجلس ٹائمز نے امریکی مسلمان شہریوں اور باقی ماندہ شہریوں کے باہمی تعلّقات کا، اعدادو شمارکی روشنی میں تجزیہ کیا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ نفرت کی بنیاد پر سنہ 2000 سے اب تک امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف ایک سو سے لے کر دو سو تک جرائم پیش آئے ہیں اور ایف بی آئی کے مطابق اس ساڑھے 31 کروڑ آبادی والے ملک میں ہزاروں جرائم ہوتے ہیں۔ ایف بی آئی کے مطابق یہ جرائم اُس دور میں ہوئے ہیں جب ٹائمز سکوائر کو بم سے اڑانے کی کوشش کی گئی، جب ایک مسافر زیر ِ جامہ میں بم رکھ کر طیارے میں بیٹھ گیا تھا۔ پھر ریاست ٹیکساس کے فورٹ ہُڈ میں امریکی فوجیوں کا قتل عام ہوا۔

اس کے علاوہ بُہت سے دوسرے ایسے گِھناؤنے جرائم کا ارتکاب کیا گیا یا ان کی کوشش کی گئی جن کے ڈانڈے کسی نہ کسی طرح اسلامی انتہا پسندوں سے ملتے تھے۔ اسی طرح کینیڈا کے حکام نے اس ہفتے ایک بھری ہوئی مسافر ریل گاڑی پر دہشت گردوں کے حملے ناکام بنانے کا اعلان کیا۔ اخبار کہتا ہے کہ یہ اعداد و شمار گنوانے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے تشدّد کی اہمیت گھٹائی جائے۔ لیکن اگر موازنہ کیا جائے تو سنہ 2011 میں یہودیوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی تعداد771 تھی اور مسلمانوں کے خلاف یہ تعداد157 تھی۔ اسی برس سیاہ فاموں کے خلاف ایسی وارداتو ں کی تعداد دو ہزار تھی۔ امریکہ میں سیاہ فام شہریوں کی مجموعی تعداد تین کروڑ 90 لاکھ ہے۔

سنہ 2011 میں پٕیو انسٹی ٹیوٹ نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس سے اس تاثُر کی نفی ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو اس ملک میں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس ادارے کے مطابق امریکی مسلمانوں میں سے 48 فیصد محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ امریکیوں کا سلوک دوستانہ ہے جب کہ 32 فی صد سمجھتے ہیں کہ یہ سلوک غیر جانب دارانہ ہے۔ صرف 16 فی صد کا خیال ہے کہ یہ سلوک غیردوستانہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دو تہائی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ امریکہ میں روزمرہ کی زندگی کا معیار بیشتر مسلمان ملکوں سے بہتر ہے۔

بین الاقوامی تعلقات کے کہنہ مشق ماہر ہنری کیسنجر کو انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبیون نے اُن اُستادوں کی فہرست میں شامل کرنے کا مشورہ دیا ہے جنہیں اس بات کی فکر نہیں کہ جزیرہ نما کوریا میں کوئی بڑی جنگ پھیلنے کا امکان ہے۔

امریکہ کے سابق وزیر خارجہ جو توانائی سے متعلّق کانفرنس میں شرکت کرنے بیجنگ گئے تھے، کہتے ہیں کہ وہ پُراعتماد ہیں کہ آخر کار ہوگا یہ کہ شمالی کوریا کو ایک بڑی جنگ شروع کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اُنہیں امید ہے کہ شمالی کوریا کی اشتعال انگیزیوں سے نمٹنا ایک مشترکہ امریکی چینی ذمّہ دارے بن جائے گی۔

اخبار کہتا ہے کہ اس جنگ کے امکان کو اہمیت نہ دینے میں وُہ اکیلے نہیں ہیں، باوجودیکہ شمالی کوریا سینہ کوبی کرتا جا رہا ہے کہ امریکہ پیانگ یانگ کے خلاف معاندانہ پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے اور جوہری دھمکی اور بلیک میلنگ سے کام لے رہا ہے۔

اس ماہ کے اوائل میں وال سٹریٹ جرنل کے ایک جائزے سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ جنوبی کوریا کے عوام قلیل وقتی نقطہء نگاہ سے اپنی سیکیورٹی کی صورت ِحال کے بارے میں شمال کی طرف سے دھمکیوں کی ختم نہ ہونے والی بوچھاڑ کی وجہ سے کم مطمئن ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کے اندر یہ اعتماد برابر موجود ہے کہ بالآخر یہ بُحران بھی ٹل جائے گا۔ ایک امریکی تحقیقی ادارے نے اپریل کے اوائل میں ٹیلیفون پر جنوبی کوریا کے شہریوں کا ایک جا ئزہ لیا تھا جس میں لگ بھگ تقریباً اُنسٹھ فیصد نے جواب میں کہا تھا کہ وُہ طویل وقتی نقطہء نگاہ سے اپنے ملک کی سلامتی کے بارے میں پُر امّید ہیں۔