کراچی۔۔ کہتے ہیں لوگوں کو ہنسانا، رلانے سے زیادہ مشکل کام ہے۔۔۔لیکن، پاکستانی کامیڈین سعد ہارون یہ مشکل کام بآسانی کرلیتے ہیں اور ان کا کام کتنا پسند کیا جاتا ہے اس کا ثبوت ہے امریکا میں پہلی بار منعقد ہونیوالے ’مزاحیہ شخصیت‘ کے مقابلے میں سعد ہارون کا دوسری پوزیشن پر آنا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے سعد ہارون ایک عشرے تک اپنے گروپ ’بلیک فش‘ کے ساتھ لوگوں میں مسکراہٹیں بانٹتے رہے اور اس کام کے لئے انہوں نے انگریزی کو ذریعہ اظہار بنایا۔
’لاف فیکٹری‘: دنیا کی سب سے مزاحیہ شخصیت‘ کے نام سے ہونے والے مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے والے سعد ہارون نیویارک میں مقیم ہیں۔ اعزاز حاصل کرنے پر اپنے مخصوص انداز میں سعد کا کہنا تھا ’میں ہمیشہ سے جیتنا چاہتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ میں مقابلے کے فائنل تک پہنچوں گا اور بس اسی یقین کے سہارے آگے بڑھتا چلاگیا۔۔‘
’لاف فیکٹری۔۔۔‘ نامی مقابلہ پانچ چھ مہینوں تک جاری رہا جس میں ججز کے پینل نے ہالی وڈ اور لاس ویگاس میں پہلے 100 پھر سیمی فائنل اورفائنل کے لئے 10 اور 5 کامیڈینز کا انتخاب کیا۔
مزاحیہ شخصیت کے مقابلے میں آن لائن ووٹنگ کے ذریعے فن لینڈ کے اسمولیکولا پہلے جبکہ سعد ہارون سات ہزارووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔
مقابلے کے دوران، پاکستان سے ملنی والی حمایت پر سعد نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، ’اگر مجھے پاکستان سے سپورٹ نہ ملتی تو میں جیت نہیں سکتا تھا۔ پاکستانی بہت گرمجوش اور محبت کرنے والے ہیں اور مثبت چیزوں کو سراہنے اور انجوائے کرنے کا موقع ڈھونڈتے ہیں۔‘
سعد ہارون نے روزنامہ’ ٹریبون‘ سے گفتگو میں بتایا ’پاکستانی آرٹسٹ بھی میری سپورٹ میں پیچھے نہیں رہے خصوصاً اسٹرنگز، فواد خان، ماہرہ خان، میشا شفیع اور علی ظفر نے سوشل میڈیا پر بھرپور انداز میں سپورٹ کیا‘۔
جب سعد سے کہا گیا کہ انہوں نے بہت سے نوجوانوں مثلاً دانش علی، علی گل پیر اور اکبر چوہدری کے لئے کامیڈی کی فیلڈ میں رول ماڈل کا کردار کیا تو سعد ہارون نے انکساری سے جواب دیا ’ہو سکتا ہے کچھ نوجوان آرٹسٹس مجھ سے متاثر ہوں۔ لیکن، یہ سب شروع میں نے نہیں کیا۔‘
وہ مزید کہتے ہیں ’ففٹی ففٹی‘ جیسے ٹی وی شوز اور انور مقصود و بشریٰ انصاری جیسے لیجنڈز کی بدولت مجھے کامیڈی اچھی لگی اور میں نے اسے اپنا لیا اور آگے لے کر چل رہا ہوں۔۔‘
کامیڈین سنگر علی گل پیر سعد ہارون کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔ علی نے سعد کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’سعد کی کامیابی سے نہ صرف اسٹینڈ اپ کامیڈی کو بلکہ کامیڈی کی ہر شکل کو مجموعی طور پر فائدہ پہنچے گا۔ امید ہے مستقبل میں مزید نوجوان کامیڈی کے شعبے کا رخ کریں گے۔‘