تاریخی طورپر سندھ پر ڈاکو راج کی اندھیری راتیں ہر حکمران کے لیے چیلینج رہی ہیں۔ اور اس چیلنج سے نمٹنے کی صلاحیتوں کا فقدان سندھ میں یکے بعد دیگرے کئی حکومتوں کی تبدیلیوں اور برطرفیوں کی وجہ بھی رہا ہے۔
امریکہ میں پاکستانی ادب کے منظرنامے پر جہاں بڑے شاعر، ادیب اور دانشور نظر آتے ہیں ، وہاں سب کے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ نئی پود تو اردو سمیت اپنی مادری زبانیں پڑھتی لکھتی ہی نہیں ہے تو پاکستانی زبانوں اور ادب کا مستقبل کتنا روشن ہے؟
معروف سندھی لکھاری، شاعرہ اور خواتین کے انسانی حقوق کی سرگرم کارکن امر سندھو کہتی ہیں "قرة العین حیدر کیلے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس کا قاری مخصوص مزاج کا ہے جو تاریخ، وقت اور پھر انسانی فطرت کے ساتھ سماجی رشتے کو دیکھنے والا ہے۔
. 14 اگست 1983 کو تحریک بحالی جمہوریت ملک میں اور خاص طور صوبہ سندھ میں ضیاء الحق مارشل لاء کے خلاف ایک بڑی عوامی احتجاجی لہر کی طرح ابھر چکی تھی ۔ سندھ کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ کسی ایسی مزاحمتی تحریک میں اہم کردار خواتین اور یہاں تک کہ چھوٹی بچیوں کا بھی رہا ہو۔
شورش کاشمیری کی اردو زبان پر قدرت کا اعتراف ذوالفقار علی بھٹو نے جیل کی کال کوٹھری سے اپنی لکھی انگریزی کتاب “اگر مجھے قتل کیا گیا” میں کچھ ان الفاظ میں کیا ہے:“ اگر اچھی اردو کی بنیاد پر ووٹ پڑتے تو پھر پاکستان کے عوام مجھے نہیں عطاءاللہ شاہ بخاری اور شورش کاشمیری کو ووٹ دیتے۔
جیٹھمل 22 سے زیادہ کتابوں کے مصنف و مترجم تھے۔ جن میں ان کی انگریزی میں شہرہ آفاق کتاب ”سندھ کے سنت اور صوفی“، کارل مارکس کی سوانح عمری اور جرمن شاعر گوئٹے کی”دی فاؤسٹ “کا سندھی ترجمہ بھی شامل ہے۔ وہ اپنے دور میں شاہ لطیف کے دو بڑے شارحین میں سے ایک تھے ۔
سانگھڑ کے بیاسی سالہ اللہ ورایو اداسی کی یہ کہانی ان نسلوں کی کہانی ہے جنہیں 1898 سے لیکر 1952 تک اس طرح کے کیمپوں میں قید رکھا گیا۔ 54 برسوں تک۔ پہلے برطانوی حکومت اور پھر پاکستانی حکومت کے کیمپوں میں۔ ان لوگوں کی ان کیمپوں میں دو نسلیں پیدا ہوئیں ، بڑی ہوئیں، کئی لوگ فوت ہوئے۔