بلوچستان کے ضلع خضدار میں کچھ خواتین نے موجودہ دور کے مطابق روایتی کشیدہ کاری کو مقامی اور عالمی سطح پر پہنچانے اور ناخواندہ خواتین کو خود مختار بنانے کا پروگرام شروع کیا ہے۔ مرتضیٰ زہری کی رپورٹ
لاہور کے دو انجینئرز نے نابینا افراد کی معاونت کے لیے ڈیجیٹل چھڑی متعارف کرائی ہے جسے گو کین کا نام دیا گیا ہے۔ گو کین نابینا افراد کو ارتعاش کے ذریعے رکاوٹوں سے آگاہ کرتی ہے۔ ڈیجیٹل چھڑی متعارف کرانے والے نوجوانوں کو امید ہے کہ گو کین نابینا افراد کی مخصوص سفید چھڑی کا بہتر متبادل ثابت ہو گی۔
بلوچستان میں روایتی کشیدہ کاری کا فن اب بدلتے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو رہا ہے۔ جو کڑھائی پہلے صرف ہاتھ سے ہوا کرتی تھی، مشینوں کے استعمال کی بدولت اب مزید سہل اور سستی ہوگئی ہے۔ لیکن مشینوں کے استعمال نے گھروں پر سلائی کڑھائی کرنے والی خواتین کے روزگار کے لیے مشکل کھڑی کردی ہے۔
کوئٹہ کے پسماندہ علاقے سریاب روڈ کے رہائشی وسیم کو بچپن سے کارٹون دیکھنے کا شوق تھا اور اسی شوق کی وجہ سے انہوں نے خود کارٹون بنانا شروع کیے۔ وسیم اب تک 15 اینی میشن فلمیں بنا چکے ہیں۔ کارٹون اینیمیشن انہوں نے یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھ کر خود ہی سیکھی ہے۔
بلوچستان کے پشتون قبائل کے لوگ ہر خوشی کے موقع پر کشیدہ کاری والی ٹوپی اور چھ سے آٹھ میٹر کی لُنگی پہننا پسند کرتے ہیں۔ عام مارکیٹ میں ان ٹوپیوں کی قیمت پانچ سو سے 15 ہزار تک ہوتی ہے۔ اس حوالے سے کوئٹہ سے مرتضی زہری کی ڈیجیٹل رپورٹ
کوئٹہ کی ہاتھ سے بنی ہوئی بلوچی چپل کے چرچے ملک بھر میں ہیں، نت نئے ڈیزائن اور رنگوں پر مشتمل اس چپل کے خریدار ملک بھر میں موجود ہیں۔ عید کے موقع پر مانگ بڑھنے کے باعث کاریگر دن رات کام میں مصروف ہیں۔
مکران ڈویژن میں مزری کا درخت عام پایا جاتا ہے جس کے پتوں سے مقامی لوگ جھونپڑوں اور کچے گھروں کی چھتوں کے علاوہ ٹوپیاں، ٹوکریاں، چٹائیاں، چپلیں اور دیگر آرائشی اشیا بناتے ہیں۔ لیکن ایک نوجوان مصور ان پتوں کو اپنے فن پاروں میں استعمال کرتا ہے اور خشک پتوں سے امن کا پیغام پھیلا رہا ہے۔
خواتین کی معاشی خود مختاری کا کسی بھی ملک کی معیشت پر اچھا اثر پڑتا ہے؟ پاکستان میں خواتین کی اکثریت کوئی ایسا کام نہیں کرتی جس کا انہیں معاوضہ ملے۔ مگر ایک بڑی تعداد ان خواتین کی بھی ہے جنہیں اپنے کام کا جائز معاوضہ نہیں ملتا۔ مزید جانئیے کرن مرزا کی اس رپورٹ میں۔
کوئٹہ: عید کی آمد آمد ہے۔ بلوچستان کی ہنرمند خواتین کی دستکاریوں کے لیے مناسب پلیٹ فارم فراہم کرنے کی غرض سے ایک غیر سرکاری تنظیم نے دستکاری کی نمائش کا اہتمام کیا ہے۔ نمائش کا مقصد خواتین کو اُن کی محنت کا معاوضہ اور باعزت روزگار کی فراہمی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں مرتضیٰ زہری کی وڈیو رپورٹ۔
پاکستان ميں تانبے اور پیتل سے بننے والے ہینڈی کرافٹس بيرون ملک نوادرات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر اب اس فن کی قدر ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہو رہی ہے۔ زوال پذيری کے باعث مہنگی دھاتوں کے ہینڈی کرافٹس کی جگہ اب لوہے اور سٹیل سے بنے ہینڈی کرافٹس لے رہے ہیں۔ مزید دیکھیں اس رپورٹ میں۔
کھجور کے پتوں سے بنی اشیا زمانہِ قدیم سے استعمال کی جا رہی ہیں۔ لیکن کوئٹہ میں یہ فن اور ان اشیا کے خریدار کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس شہر میں اب کھجور کے پتوں سے بنی اشیا بیچنے والی صرف ایک ہی دکان رہ گئی ہے۔