روسی حزبِ اختلاف کے ایک سرگرم کارکن اور ان کی صحافی اہلیہ نے یوکرین سے سیاسی پناہ دینے کی درخواست کی ہے۔
آلیگزے ڈیواٹکن اور ان کی اہلیہ جینی کرپن نے موقف اختیار کیا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ صدر ولادی میر پیوٹن کی حلف برداری کےخلاف دارالحکومت ماسکو میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی پاداش میں انہیں روس میں انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جائے گا۔
مذکورہ جوڑا یوکرین پہنچ چکا ہے جہاں وہ سیاسی پناہ کے لیے دائر کردہ اپنی درخواست پر یوکرینی حکام کے جواب کا منتظر ہے۔ روسی میاں بیوی کا کہنا ہے کہ اگر یوکرینی حکومت نے ان کی درخواست رد کردی تو وہ کسی اور جگہ، بشمول سوئیڈن، ہالینڈ، فن لینڈ یا امریکہ میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
'ون رشیا گروپ' نامی تنظیم سے منسلک ڈیواٹکن نے 'وائس آف امریکہ' کی روسی سروس کو بتایا ہے کہ ولادی میر پیوٹن کی بطورِ صدر حلف برداری کی تقریب سے ایک روز قبل ماسکو میں 6 مئی کو ہونے والے احتجاج کے دوران انہیں اور ان کی اہلیہ کو گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد وہ دونوں روس سے نکل آئے۔
انہوں نے بتایا کہ گو کہ انہیں اور ان کی اہلیہ کو حکام نے رہا کردیا تھا لیکن انہیں شبہ ہے کہ اگر وہ روس میں رکے رہتے تو انہیں انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا۔
ڈیواٹکن کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کی اہلیہ یوکرین ہی میں رہنا چاہتے ہیں باوجودیکہ جوڑے کو بتایا جاچکا ہے کہ یوکرینی حکام شاذ ہی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کرتے ہیں۔
روسی سیاسی کارکن نے کہا کہ اپنے عوام کے ساتھ یوکرینی حکومت کا رویہ روس کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہذبانہ ہے۔
آلیگزے ڈیواٹکن اور ان کی اہلیہ جینی کرپن نے موقف اختیار کیا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ صدر ولادی میر پیوٹن کی حلف برداری کےخلاف دارالحکومت ماسکو میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی پاداش میں انہیں روس میں انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جائے گا۔
مذکورہ جوڑا یوکرین پہنچ چکا ہے جہاں وہ سیاسی پناہ کے لیے دائر کردہ اپنی درخواست پر یوکرینی حکام کے جواب کا منتظر ہے۔ روسی میاں بیوی کا کہنا ہے کہ اگر یوکرینی حکومت نے ان کی درخواست رد کردی تو وہ کسی اور جگہ، بشمول سوئیڈن، ہالینڈ، فن لینڈ یا امریکہ میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
'ون رشیا گروپ' نامی تنظیم سے منسلک ڈیواٹکن نے 'وائس آف امریکہ' کی روسی سروس کو بتایا ہے کہ ولادی میر پیوٹن کی بطورِ صدر حلف برداری کی تقریب سے ایک روز قبل ماسکو میں 6 مئی کو ہونے والے احتجاج کے دوران انہیں اور ان کی اہلیہ کو گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد وہ دونوں روس سے نکل آئے۔
انہوں نے بتایا کہ گو کہ انہیں اور ان کی اہلیہ کو حکام نے رہا کردیا تھا لیکن انہیں شبہ ہے کہ اگر وہ روس میں رکے رہتے تو انہیں انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا۔
ڈیواٹکن کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کی اہلیہ یوکرین ہی میں رہنا چاہتے ہیں باوجودیکہ جوڑے کو بتایا جاچکا ہے کہ یوکرینی حکام شاذ ہی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کرتے ہیں۔
روسی سیاسی کارکن نے کہا کہ اپنے عوام کے ساتھ یوکرینی حکومت کا رویہ روس کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہذبانہ ہے۔