ترکی کے شہر استنبول میں ایک بین الاقوامی راک میوزک فیسٹیول جاری تھا کہ عین اُسی وقت الکوہل پر پابندی عائد کردی گئی، جس کے بعد مذہبی اور سیکولر لوگوں کے درمیان اِس عنوان پر ایک گرما گرم بحث چھڑ گئی ہے۔
اور یہ بحث اُس وقت ہورہی ہے جب ماہِ رمضان جاری تھا۔
استنبول تاریخی مسجدوں اور شہرت رکھنے والی نائٹ لائف کا سنگم ہے۔ اِس نئے تنازع کے شہر کے مستقبل پر دوررس اثرات پڑ سکتے ہیں۔
راک میوزک کی یہ تقریب استنبول کی بلجی یونیورسٹی میں جاری تھی کہ مذہبی اور سیکولر افراد کے مابین جھڑپیں ہوئیں۔
ایک دِن جاری رہنے والی یہ تقریب ترکی کی بیئر بنانے والی فرم کے توسط سے منعقد ہوئی تھی، تاہم عین وقت پر شراب پر لاگو ہونے والی ممانعت نے جھگڑا کھڑا کر دیا۔ آخرِ کار، ہوا یہ کہ موسیقی کے دلدادہ ہزاروں شائقین نے لیموں کے پانی اور سادہ پانی پر گزارا کیا۔
یہ محفلِ موسیقی شہر کے ایوب ضلعے میں ہوئی، جس میں بڑے تعداد میں مذہبی لوگ آباد ہیں، جہاں رمضان کی حرمت کی سختی سےپابندی کی جاتی ہے۔ مقامی حکام کا تعلق ایک مذہبی اساس رکھنے والی ’اے کے پارٹی‘ سے ہے، جنھوں نے مقامی آبادی کے احساسات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، عائد کی گئی پابندی کا دفاع کیا۔
لیکن، دوسرے خیالات رکھنے والے طبقے نے اِس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔
ایک شخص نے بتایا کہ اڑوس پڑوس کے افراد نے ایک درخواست پر دستخط کرائے جس میں میوزک کنسرٹ میں شراب بیچنے پر پابندی عائد کرنےکا مطالبہ درج تھا۔ لیکن میں نے اِس پر دستخط نہیں کیے، کیونکہ میں اِس بات کو درست نہیں سمجھتا کہ دوسرے لوگوں کی ذاتی زندگی میں دخل دینا درست ہوگا۔
ایک خاتون نے اِس خیال سے اتفاق نہیں کیا۔ ’چونکہ، اس علاقے کی وسیع تر اکثریت مذہبی لوگوں پر مشتمل ہے، اس لیے ان لوگوں کے احساسات کا خیال رکھنا لازم تھا‘۔
ملک کے مؤقر اخباری کالم نگاروں نے الکوہل پر لگائی جانے والی پابندی پر تنقید کی ہے۔
اخبار ‘ملت‘ کے کالم نویس، حسن کمال نے لکھا ہے کہ یہ لڑائی شراب کے بارے میں نہیں بلکہ آزادی کے بارے میں ہے۔
تاہم، وزیر اعظم رجب طیب اردگان جن کی ’اے کے پارٹی‘ میں اکثریت مذہبی لوگوں کی ہے، فخریہ طور پر کہا کہ میوزک کنسرٹ کے دوران شراب پر لگائی جانے والی پابندی کے فیصلے کے پیچھے اُن کا ہاتھ ہے۔
اُن کے بقول، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان شراب کے عادی بن جائیں۔ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ میں نے یونیورسٹی حکام سے کہا کہ ہمیں اِس فیسٹیول سے پریشانی لاحق ہے۔ اللہ کو مانو، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
استنبول اسلام کی اہم مساجد کے باعث مشہور ہے، لیکن ساتھ ہی فروغ پاتی ہوئی نائٹ لائف اس کا خاصا ہے، جہاں بارز اور ریستوراں صدیوں سے چلے آرہے ہیں۔
استنبول بلجی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے گوخن تان کہتے ہیں کہ اُنھیں پریشانی یہ ہے کہ اس شہر کا نازک ’بیلنس‘ تبدیل ہو رہا ہے۔
تاہم، شہر کے مضافات میں جہاں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی پارٹی کے حامی اکثریت میں ہیں، بارز اور ریستوراں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
استنبول ڈیڑھ کروڑ نفوس پر مشتمل شہر ہے، جو ملک کی آبادی کا چوتھائی ہے۔
اور کئی اعتبار سے، استنبول معاشرے کا عکاس ہے۔
لوگوں کو پریشانی لاحق ہے کہ اگر برداشت کا جذبہ ماند پڑا، تو اِس کا اثر نہ صرف استنبول پر لیکن ترکی کے مستقبل پر بھی پڑے گا۔
اور یہ بحث اُس وقت ہورہی ہے جب ماہِ رمضان جاری تھا۔
استنبول تاریخی مسجدوں اور شہرت رکھنے والی نائٹ لائف کا سنگم ہے۔ اِس نئے تنازع کے شہر کے مستقبل پر دوررس اثرات پڑ سکتے ہیں۔
راک میوزک کی یہ تقریب استنبول کی بلجی یونیورسٹی میں جاری تھی کہ مذہبی اور سیکولر افراد کے مابین جھڑپیں ہوئیں۔
ایک دِن جاری رہنے والی یہ تقریب ترکی کی بیئر بنانے والی فرم کے توسط سے منعقد ہوئی تھی، تاہم عین وقت پر شراب پر لاگو ہونے والی ممانعت نے جھگڑا کھڑا کر دیا۔ آخرِ کار، ہوا یہ کہ موسیقی کے دلدادہ ہزاروں شائقین نے لیموں کے پانی اور سادہ پانی پر گزارا کیا۔
یہ محفلِ موسیقی شہر کے ایوب ضلعے میں ہوئی، جس میں بڑے تعداد میں مذہبی لوگ آباد ہیں، جہاں رمضان کی حرمت کی سختی سےپابندی کی جاتی ہے۔ مقامی حکام کا تعلق ایک مذہبی اساس رکھنے والی ’اے کے پارٹی‘ سے ہے، جنھوں نے مقامی آبادی کے احساسات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، عائد کی گئی پابندی کا دفاع کیا۔
لیکن، دوسرے خیالات رکھنے والے طبقے نے اِس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔
ایک شخص نے بتایا کہ اڑوس پڑوس کے افراد نے ایک درخواست پر دستخط کرائے جس میں میوزک کنسرٹ میں شراب بیچنے پر پابندی عائد کرنےکا مطالبہ درج تھا۔ لیکن میں نے اِس پر دستخط نہیں کیے، کیونکہ میں اِس بات کو درست نہیں سمجھتا کہ دوسرے لوگوں کی ذاتی زندگی میں دخل دینا درست ہوگا۔
ایک خاتون نے اِس خیال سے اتفاق نہیں کیا۔ ’چونکہ، اس علاقے کی وسیع تر اکثریت مذہبی لوگوں پر مشتمل ہے، اس لیے ان لوگوں کے احساسات کا خیال رکھنا لازم تھا‘۔
ملک کے مؤقر اخباری کالم نگاروں نے الکوہل پر لگائی جانے والی پابندی پر تنقید کی ہے۔
اخبار ‘ملت‘ کے کالم نویس، حسن کمال نے لکھا ہے کہ یہ لڑائی شراب کے بارے میں نہیں بلکہ آزادی کے بارے میں ہے۔
تاہم، وزیر اعظم رجب طیب اردگان جن کی ’اے کے پارٹی‘ میں اکثریت مذہبی لوگوں کی ہے، فخریہ طور پر کہا کہ میوزک کنسرٹ کے دوران شراب پر لگائی جانے والی پابندی کے فیصلے کے پیچھے اُن کا ہاتھ ہے۔
اُن کے بقول، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان شراب کے عادی بن جائیں۔ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ میں نے یونیورسٹی حکام سے کہا کہ ہمیں اِس فیسٹیول سے پریشانی لاحق ہے۔ اللہ کو مانو، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
استنبول اسلام کی اہم مساجد کے باعث مشہور ہے، لیکن ساتھ ہی فروغ پاتی ہوئی نائٹ لائف اس کا خاصا ہے، جہاں بارز اور ریستوراں صدیوں سے چلے آرہے ہیں۔
استنبول بلجی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے گوخن تان کہتے ہیں کہ اُنھیں پریشانی یہ ہے کہ اس شہر کا نازک ’بیلنس‘ تبدیل ہو رہا ہے۔
تاہم، شہر کے مضافات میں جہاں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی پارٹی کے حامی اکثریت میں ہیں، بارز اور ریستوراں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
استنبول ڈیڑھ کروڑ نفوس پر مشتمل شہر ہے، جو ملک کی آبادی کا چوتھائی ہے۔
اور کئی اعتبار سے، استنبول معاشرے کا عکاس ہے۔
لوگوں کو پریشانی لاحق ہے کہ اگر برداشت کا جذبہ ماند پڑا، تو اِس کا اثر نہ صرف استنبول پر لیکن ترکی کے مستقبل پر بھی پڑے گا۔