عقیلہ اسماعیل پیشے کے لحاظ سے انجینیر ہیں۔ ایک عرصے تک این اِی ڈی یونیورسٹی کراچی میں ایسو سی ایٹ پروفیسر رہیں۔ لکھتی تو بہت سے موضوعات پر رہیں مگر ادب سے خاص طور سے دلچسپی رکھی اور اسی شوق کی تکمیل کے لیے فہمیدہ ریاض کے تین ناولوں اور اسد محمد خان کے افسانوں کا ترجمہ کر ڈالا۔
اور اب حال ہی میں ان کا طبع زاد انگریزی ناول Martyrs and Marygold شائع ہوا ہے۔ اسی ناول کی تعارفی تقریبات میں شرکت کے لیےوہ حال ہی میں واشنگٹن تشریف لائیں۔
وائس آف امریکہ کے ادبی مجلّے ’صدا رنگ‘ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے عقیلہ اسماعیل نے بتایا کہ 2008ء سے انہوں نے اپنی ساری توجہ اس ناول پر مرکوز کی، کیوں کہ، بقول اُن کے، یہ ایک کُل وقتی کام تھا جب پاکستان کا مشرقی حصّہ پاکستان سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بنا تو اُس وقت وہ وہیں تھیں۔ اُس زمانے کی باتیں اور یادیں ہمیشہ ان کا پیچھا کرتی رہیں۔ کبھی اُن یادوں کو خود نوشت انداز میں لکھنے کا سوچا اور کبھی کسی اور اسلوب میں ، مگر تان ناول پر ٹوٹی۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
عقیلہ اسماعیل نے ہمیں بتایا کہ ناول کا آغاز فروری 1972ء سے ہوتا ہے اور پھر ماضی کی طرف مراجعت ، 1947 ءکی ہجرت، اور اس دوران پاکستان کے اُس سابقہ حصّے کی زندگی کے عکس در عکس، ظلم و جبر کا نشانہ وہ بھی بنے جو مقامی تھے اور وہ بھی جو ہجرت کرکے وہاں آباد ہوئے تھے۔ یہ سبھی مظلوم ان کے ناول کے کردار ہیں اور کہانی انہیں کے گرد گھومتی ہے۔
ہمارے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ گذشتہ چالیس برسوں سے یہ واقعات ان کا تعاقب کر رہے تھے۔ بہت سے لوگوں نے اس کے بارے میں لکھا، مگر ان کا ایک مخصوص نقطہٴ نظر تھا، جب کہ ان کا موضوع عام انسان اور معاشرہ تھا، جس کی ان گنت جہتیں اور پرتیں ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کا یہ ناول ان کی ذاتی یادوں کی باز یافت ہے۔ تاریخی حقائق اور اسباب کے بکیھڑوں میں الجھے بغیر جو گزری ہے اسے بیان کیا جائے۔ سو اس طرح انہوں نے اپنا یہ پہلا ناول لکھا ۔ موجودہ ناول کو خود ہی اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی ، مگر اردو میں اپنا لکھا من کو نہ بھایا، سو اب اس کا اردو ترجمہ کسی اور سے کروا رہی ہیں۔
اپنے کیے ہوئے تراجم کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہے، کیوں کہ اردو افسانے یا ناول کا ترجمہ ایسا ہونا چاہیئے کہ اس کی اصل روح برقرار رہے اور اردو افسانہ انگریزی شارٹ سٹوری نہ بن جائے۔
خود انگریزی لکھتے ہوئے سہولت محسوس کرتی ہیں ، مگر ان کا کہنا ہے کہ یہ دونوں زبانوں میں سوچتی ہیں۔ بس جیسے ہم سب انگریزی اردو ملا کر بولتے ہیں۔
اب عقیلہ اسماعیل ایک اور ناول لکھ رہی ہیں، اس بار موضوع سندھ میں عورتوں کے مسائل ہیں۔ یہ ناول بھی ان کے ذاتی مشاہدات پر مبنی ہوگا۔
اور اب حال ہی میں ان کا طبع زاد انگریزی ناول Martyrs and Marygold شائع ہوا ہے۔ اسی ناول کی تعارفی تقریبات میں شرکت کے لیےوہ حال ہی میں واشنگٹن تشریف لائیں۔
وائس آف امریکہ کے ادبی مجلّے ’صدا رنگ‘ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے عقیلہ اسماعیل نے بتایا کہ 2008ء سے انہوں نے اپنی ساری توجہ اس ناول پر مرکوز کی، کیوں کہ، بقول اُن کے، یہ ایک کُل وقتی کام تھا جب پاکستان کا مشرقی حصّہ پاکستان سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بنا تو اُس وقت وہ وہیں تھیں۔ اُس زمانے کی باتیں اور یادیں ہمیشہ ان کا پیچھا کرتی رہیں۔ کبھی اُن یادوں کو خود نوشت انداز میں لکھنے کا سوچا اور کبھی کسی اور اسلوب میں ، مگر تان ناول پر ٹوٹی۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
عقیلہ اسماعیل نے ہمیں بتایا کہ ناول کا آغاز فروری 1972ء سے ہوتا ہے اور پھر ماضی کی طرف مراجعت ، 1947 ءکی ہجرت، اور اس دوران پاکستان کے اُس سابقہ حصّے کی زندگی کے عکس در عکس، ظلم و جبر کا نشانہ وہ بھی بنے جو مقامی تھے اور وہ بھی جو ہجرت کرکے وہاں آباد ہوئے تھے۔ یہ سبھی مظلوم ان کے ناول کے کردار ہیں اور کہانی انہیں کے گرد گھومتی ہے۔
ہمارے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ گذشتہ چالیس برسوں سے یہ واقعات ان کا تعاقب کر رہے تھے۔ بہت سے لوگوں نے اس کے بارے میں لکھا، مگر ان کا ایک مخصوص نقطہٴ نظر تھا، جب کہ ان کا موضوع عام انسان اور معاشرہ تھا، جس کی ان گنت جہتیں اور پرتیں ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کا یہ ناول ان کی ذاتی یادوں کی باز یافت ہے۔ تاریخی حقائق اور اسباب کے بکیھڑوں میں الجھے بغیر جو گزری ہے اسے بیان کیا جائے۔ سو اس طرح انہوں نے اپنا یہ پہلا ناول لکھا ۔ موجودہ ناول کو خود ہی اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کی ، مگر اردو میں اپنا لکھا من کو نہ بھایا، سو اب اس کا اردو ترجمہ کسی اور سے کروا رہی ہیں۔
اپنے کیے ہوئے تراجم کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ ایک مشکل کام ہے، کیوں کہ اردو افسانے یا ناول کا ترجمہ ایسا ہونا چاہیئے کہ اس کی اصل روح برقرار رہے اور اردو افسانہ انگریزی شارٹ سٹوری نہ بن جائے۔
خود انگریزی لکھتے ہوئے سہولت محسوس کرتی ہیں ، مگر ان کا کہنا ہے کہ یہ دونوں زبانوں میں سوچتی ہیں۔ بس جیسے ہم سب انگریزی اردو ملا کر بولتے ہیں۔
اب عقیلہ اسماعیل ایک اور ناول لکھ رہی ہیں، اس بار موضوع سندھ میں عورتوں کے مسائل ہیں۔ یہ ناول بھی ان کے ذاتی مشاہدات پر مبنی ہوگا۔